کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 360
طائف سےایک قافلہ کشمش لے کرآیاہے،وہ تمہارے اس نرخ سےدھوکا کھا جائیں گے،لہٰذا یا تو نرخ بڑھاؤ اوریاپھر اپنی کشمش گھرلےجاؤ اور وہاں جس نرخ سےچاہوبیچو۔ اس کےبعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھرسے لوٹے اوردوبارہ اس معاملے پرغور کیا، پھر حاطب کےپاس ان کےگھر آئے اورکہا :جو میں تم سے کہا تھا، وہ میراحکم تھا نہ ہی فیصلہ بلکہ میں نے اہل مدینہ کی بھلائی چاہی تھی،لہذا جاؤ جہاں اورجیسے چاہو بیچو۔[1] امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتےہیں : یہ حدیث مشہور ہےاور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کےقول کےمخالف بھی نہیں کیونکہ انہوں نے حدیث کاکچھ حصہ بیان کیا ہےیا ان سےروایت کرنے والوں نےحدیث کاایک ٹکڑا لے لیا ہےلیکن دروردی نےحدیث اول تاآخر ساری بیان کی ہے اور اس کےمطابق میں کہتا(مسئلہ بیان کرتا) ہوں کیونکہ لوگوں کا اپنےاموال پرحق ہے۔ کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ ان کی مرضی کےبغیر ان کاسارا مال یاکچھ مال وصول کرلیں سوائے ان صورتوں کےکہ جس میں ایسا کرنا جائز ہواور جہاں تک مذکورہ بالا صورت کاتعلق ہےتووہ ناجائز صورتوں میں سے نہیں ہے۔[2] مندرجہ بالا تفصیل سےمعلوم ہوا کہ اگر قیمتوں کےبہت زیادہ اتار چڑھاؤ سے لوگوں کونقصان پہنچنےکا اندیشہ ہوتوحکومت نرخ مقرر کرسکتی ہے، وگرنہ عام حالات میں ہردکان دارکو اپنا نرخ متعین کرنےکی اجازت ہے۔ اس موضوع پرامام ابن قیم نےاپنی کتاب الطرق الحکمیۃ میں بحث کی ہے۔
[1] السنن الکبریٰ للبیہقی : 6؍29 [2] المجموع شرح المہذب:13؍35،والحاوی فی فقہ الشافعی :5؍407 )