کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 357
تھی لیکن جب والدہ نےاس بارے میں پوچھا تووالد نےاس کمائی کامال حرام ہونے سےانکار کیا۔ میری والدہ نےیہ مال بھی کسی حرام مصرف میں خرچ نہیں کیا بلکہ اس مال سےہماری بھی مدد کی اوردوسرے کئی خیر کےکام بھی کیے ایک غلط حرکت ان سے ضرور سرزد ہوئی اور وہ یہ کہ اس سال مال کوبینک سےسودی کھاتے میں رکھا اوروہ بھی اسلام سےاپنی لاعلمی اورعدم واقفیت کی بناپر۔ اب میرا سوال یہ ہےکہ کیاہم ورثہ کےطورپر یہ مال لےسکتےہیں اورشک وشبہ کورفع کرنے کےلیے آیا ہم کچھ مال صدقہ کردیں یاسرے سے یہ ورثہ نہ لیں، حالانکہ ہم ضرورت مند بھی ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہےکہ ہم سات بہنیں ہیں، سوائے ایک کےسب شادی شدہ ہیں توکیا ہمارے اخیافی بھائی(ماں کی طرف سےبھائی) ہمارے ساتھ وراثت میں شریک ہوں گے؟ جواب: جہاں تک مالِ وراثت کا تعلق ہےتوآپ کےوالد انکار کرچکےہیں کہ وہ مال حرام تھا، نہ آپ کےپاس اس کےحرام ہونےکی کوئی دلیل ہی ہے۔آپ کی والدہ نےیہ مال بطور ہدیہ وصول کیاتھا تووہ ان کےلیے حلال تھا۔ جہاں تک اس کے سودی کھاتے میں رکھنے کاسوال ہے تواصل مال تو شروع ہی سے حلال ہونے کی بنا پر حلال ہی شمار ہوگا،چاہے وہ سودی کھاتے میں کیوں نہ رکھا گیا ہوکیونکہ سودی کھاتے میں رکھنے کی وجہ سے اصل مال حرام نہیں ہوگا،البتہ اس مال پرحاصل ہونے والا سود یقیناً حرام ہے لیکن چونکہ آپ نے یہ سارا مال(اصل زرمع سود) بطور میراث حاصل کیا ہے توہاتھ بدلنے کی بناپر آپ کےلیے حلال ہوگا۔(ہاتھ بدلنے سےمراد کہ پہلے شخص نےتومال حرام طریقے سے حاصل کیا لیکن جب دوسرے شخص کےہاتھ میں وہ ایک جائز طریقے سے آیا توپہلے آدمی کا گناہ دوسرے کومنتقل نہیں ہوگا)اورقاعدہ ہے