کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 351
ہے۔‘‘[1]اس لیےدودھ کی بینکوں کےبارےمیں بین الاقوامی اسلامی فقہ کونسل کےاجلاس منعقدہ جدہ(سعودی عرب) بتاریخ دسمبر 1985ء میں یہ فیصلہ رقم کیا گیا۔ اس موضوع پرتفصیلی بحث سےمندرجہ ذیل نکات سامنے آئے: دودھ بینکوں کا تجربہ مغربی ممالک میں کیا گیا اورجوں جوں اس کےمنفی پہلو سامنے آتےگئے،اس کا استعمال کم ہوتا گیا۔ اسلام میں رضاعت سےحرمت ثابت ہوتی ہےاورشریعت میں نسب کی حفاظت ایک مقصد کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ دودھ بینکوں کااستعمال نسب کو ضائع کرسکتا ہےیا اس سلسلے میں شکوک وشبہات کوجنم دےسکتاہے۔ عالم اسلام میں اجتماعی طورپر ایسے روابط پائے جاتےہیں جن کےذریعے سےان بچوں کوضرورت کی مطابق قدرتی رضاعت مہیا کردی جاتی ہےجو یاتو ناقص الخلقت ہوں یاکم وزن ہوں یاانسانی دودھ کےخاص طورپر محتاج ہوں، اس لیے عالم اسلام میں دودھ بینکوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کونسل یہ فتویٰ دیتی ہےکہ عالم اسلام میں دودھ بینکوں کےقیام کوممنوع قرار دیا جائے اوراگران بینکوں سےاستفادہ کیا گیا ہوتو اس سے رضاعت کی بناپر حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ لیکن ہم سمجھتےہیں کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کےلیے اس مسئلہ میں مزید بحث اورتحقیق کی گنجائش ہے،وہ اس لیے کہ دودھ بینکوں کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہاہے۔
[1] صحیح البخاری ، النکاح ، حدیث: 5099، وصحیح مسلم، الرضاع، حدیث: 1445