کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 343
سےکرتےتھے۔[1] معمر کہتےہیں: میں زہری سےپوچھا: کیا ہم غیرحاضر شخص کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں توان انہوں نےکہا: لَا بأسَ بِہ’’ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ اب آئیے حدیث فاطمہ کی طرف۔امام حاکم یہ روایت لائے ہیں کہ عمران بن حصین ‎‎ رضی اللہ عنہما سےمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ’’ اے فاطمہ ! اپنی قربانی کی طرف کھڑی ہوجاؤ اوروہاں حاضر رہو کیونکہ اس کے خون کاپہلا قطرہ جوں ہی بہے گا تمہارے ہراس گناہ کی مغفرت ہوجائے گی جوتم نے کیاہوگا۔(قربانی کےوقت) یہ الفاظ کہو: ﴿ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي للّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴾[2] عمران رضی اللہ عنہ نےپوچھا: اللہ کےرسول! کیا یہ بات صرف آپ کےلیے اورآپ کےاہل بیت کےلیے ہےیا تمام مسلمانوں کےلیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کےلیے ہے۔‘‘ [3] امام حاکم تواپنی ہرروایت کےبارےمیں کہتےہیں کہ صحیح الاسناد ہےگوبخاری و مسلم نےاسے روایت نہیں کیا،اس لیے حقیقت جاننے کےلیے امام ذہبی کاسہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ کہتےہیں: اس کی سند میں ابوحمزہ شمالی نہایت کمزور راوی ہے اور دوسرا راوی اسماعیل بھی اتنا قابل اعتماد نہیں۔[4] حاکم حضرت ابوسعید سےبھی روایت لائے ہیں جس کےایک راوی’’عطیہ‘‘
[1] مصنف عبد الرزاق: 4؍ 380 [2] الانعام 6: 162۔ 163 [3] مستدرک حاکم: 4؍222 [4] ذیل مستدرک حاکم:4؍222