کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 342
امام مالک کہتےہیں: یہ تو صرف ایک بھیڑ کاگوشت شمار ہوگا،بھیڑ کےمالک کو تاوان واجب الادا ہوگا اور اسے دوسرا ایک جانور ذبح کرناہوگا کیونکہ ذبح کرنا عبادت ہےاور اگر اس کےمالک کی اجازت کےبغیر اس عبادت کوکیا گیا تو وہ ادا نہ ہوگی جیسے کہ زکاۃ کامسئلہ ہے۔ امام شافعی نےکہا: بھیڑ کےمالک کواتنا تاوان واجب الادا ہوگا جوبھیڑ کی قیمت (زندہ حالت میں)اوربعد ذبح قیمت کےدرمیان ہو۔ ہمارے قول کی دلیل یہ ہے کہ یہ فعل نیت کامحتاج نہیں۔ اگر کوئی دوسرا بھی کرڈالے تو کافی ہوگا جیسے آدمی کےکپڑے پرنجاست لگ جائے اورکوئی دوسرا اسے دھوڈالے۔[1] یوں بھی کہا جاسکتا ہےکہ بدنی عبادات،جیسے نماز اور روزے میں نیابت نہیں ہوتی لیکن مالی عبادات جیسے زکاۃ اورقربانی میں نیابت اس لیے جائز ہےکہ اس میں فقراء کوفائدہ پہنچانا مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اگرزکاۃ کی رقم فقراء تک پہنچ گئی اوراسی طرح قربانی کا گوشت بھی ذبح کےبعد مستحقین تک پہنچ گیا تو پھریہ نہیں دیکھا جائے گا کہ زکاۃ دینے والے نےخود اپنی زکاۃ فقراء تک پہنچائی تھی یا اس کےنائب نےاور اسی طرح قربانی میں بھی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ آدمی نےخود قربانی کرکے گوشت تقسیم کیا تھا یا اس کی طرف سےکسی اورنے یہ عمل سرانجام دیا تھا۔ کسی دوسرے کی طرف سےقربانی کرنے پریہ آثار بھی ملاحظہ ہوں: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جنین(جوبچہ ابھی شکم مادر میں ہو) کےعلاوہ اپنے تمام چھوٹے اوربڑے بچوں کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھےاور عقیقہ اپنی تمام اولاد کی طرف
[1] المغنی :3؍ 390