کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 336
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ختم کرنےکےبعد منبر سےاترے۔ آپ کےپاس ایک مینڈھا لایا گیا توآپ نےیہ کہتے ہوئے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا: "بسم اللّٰه واللّٰه أكبر، هذا عنى وعمن لم يضح من أمتى " ’’اللہ کےنام کےساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے،یہ میری طرف سے ہےاور میری امت کے ان تمام لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔‘‘[1] میت کی طرف سے قربانی کےجواز کادارومدار ان دو احادیث پرہے۔ اب آئیے ملاحظہ کریں کہ محدثین نےان دونوں احادیث کی سند کےبارے میں کیا لکھا ہے؟ پہلی حدیث کی سند میں امام ترمذی کےبعد راویوں کی ترتیب اس طرح ہے: محمد بن عبیدالمحاربی الکوفی: جوکہ امام ترمذی کےشیخ ہیں۔ شریک بن عبداللہ القاضی: فيه مقال وهو سيئ الحفظ، ان کےبارے میں اعتراض کیاگیا ہے اور حافظے کےاعتبار سے وہ اچھے نہیں ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےمتابعات یعنی حدیث کےشواہد کےطورپر ان کی حدیث کولیا ہے۔ ابوالحسناء :مجہول ہیں،حکم بن عتیبہ سےان کی روایت معروف نہیں ہے۔ حکم بن عتیبہ : ثقہ اور قابل اعتبار ہیں۔ حنش بن معتمر الکنانی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کےاصحاب میں سے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حدیث ضعیف ہے۔ دوسری حدیث کی سند میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سےروایت کرنےوالے مطلب بن عبداللہ بن حنطب ہیں۔ ان کےبارے میں کہاگیا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سےان کاسماع ثابت
[1] سنن ابی داؤد ، حدیث: 2810، و جامع الترمذی، حدیث: 1521