کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 329
اس سےبھی معلوم ہوا کہ کہ سادات بنوہاشم کی ضروریات کوپورا کرنا فی سبیل ا للہ میں داخل تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں اس میں داخل نہیں کیا، یہی بات مساجد کی تعمیر کےبارے میں کہی جاسکتی ہےکہ لوگوں کا میل کچیل مساجد کی تعمیر پرخرچ نہیں کرنا چاہیے،پھر اس بات سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغربی ممالک میں مساجد کی تعمیر پراچھی خاصی رقم صرف ہوجاتی ہےاوراگر زکاۃ کی رقوم مساجد پرصرف کی جانےلگیں تو پھر فقراء ومساکین اورمحتاجوں کےلیے کچھ باقی نہ رہےگا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان ممالک میں مسجد کےایک گنبد یامینار کی تعمیر پرپچاس ساٹھ ہزار پونڈ بآسانی خرچ ہوجاتےہیں لیکن یہی رقم اگر پاک وہند یاافریقہ کےفقراء ومساکین پرخرچ کی جائے توپچاس ساٹھ خاندان ایک سال کےلیے دست سوال دراز کرنے سےبچ سکتے ہیں،اس لیے ہماری رائے میں فی سبیل اللہ کےالفاظ کواتنی ہی وسعت دینی چاہیے کہ جس کے یہ ا لفاظ متحمل ہیں،یعنی اسے جہاد ہی سے خاص رکھا جائے کہ جس میں جہاد بالسیف،باللسان اور بالقلم تینوں انواع شامل ہیں۔ قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ میں مساجد کی تعمیر کی فضیلت وثواب پراسی لیے ابھارا گیاہے تاکہ کلمہ گوحضرات زکاۃ کےعلاوہ بھی اللہ کی راہ میں کثرت سے خرچ کریں اورجنت میں اپنے لیے محلات کھڑے کرسکیں۔