کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 327
اسی لیےقفال نےاپنی تفسیر میں بعض فقہاء سےیہ بات نقل کی ہےکہ صدقات کا خیراتی کاموں، جیسے مردوں کی تکفین، قلعوں کابنانا اورمساجد کی تعمیر میں صرف کرناجائز ہے کیونکہ فی سبیل اللہ ایک عام لفظ ہےاوران تمام باتوں پرحاوی ہے۔[1] ابن قدامہ،المغنی میں لکھتےہیں: یہ جائز نہیں ہےکہ زکاۃ کی رقم ان چیزوں میں صرف کی جائے جن کاذکراللہ تعالیٰ نے نہیں کیا،جیسے مساجد کی تعمیر،پل اورپانی کی سبیلیں بنانا، سڑکیں ٹھیک کرنا،سیلاب کےپانی کوروکنے کےلیے بندباندھنا، مردوں کی تکفین، مہمانوں کی آؤبھگت اور ایسی ہی اطاعت کی وہ تمام چیزیں جن کاذکر ا للہ تعالیٰ نے نہیں کیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتےہیں: پلوں اورراستوں میں جوبھی خرچ کیا جائے وہ صدقہ ہی ہےلیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: بےشک صدقات فقراء ومساکین کےلیے ہیں۔(الآیة) آیت کےشروع میں لفظ اِنَّماَ سےحصرواثبات دونوں ہوجاتےہیں، یعنی زکاۃ کامال انہی آٹھ اصناف ہی پرخرچ کیاجاسکتاہے،دوسروں پرنہیں۔ [2] فقہائے احناف کےنزدیک چونکہ زکاۃ ایسے ہی لوگوں کودی جا سکتی ہےجن میں مال زکاۃ کامالک بننے کی صلاحیت ہو،اس لیے وہ عام خیراتی کاموں میں زکاۃ کوصرف کرناجائز نہیں سمجھتے۔فتاویٰ ہندیہ میں مرقوم ہے: زکاۃ سےمسجد،پل اور سرائے کی تعمیر،سڑکوں کی مرمت، نہروں کی کھدائی، حج اورجہاد میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اورنہ ایسی چیزوں ہی میں خرچ کیا جاسکتاہےجس میں
[1] مفاتیح الغیب:2؍681 [2] المغنی :2؍667