کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 324
جواب: اس رقم کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں:
1۔ رقم پوری کی پوری کرایہ دار کوواپس مل جائے چاہے ایک سال بعد ہویادس سال بعد۔
2۔ اس رقم میں سے اتنے پیسے کاٹے جانے کااحتمال موجود ہوجومکان کی ٹوٹ پھوٹ کےعوض میں ہوں یامعاہدے کےختم ہونے سےچند ماہ قبل کےکرایہ میں وضع کیے گئےہوں یا کرایہ دار کامکان چھوڑ دینے کےبعد مختلف بلوں کی ادائیگی کےسلسلے میں کاٹے گئے ہوں۔
پہلی صورت کاحکم تویہ ہےکہ کرایہ دار کوہرسال ڈپازٹ والی رقم پرزکاۃ ادا کرنی چاہیے،اگروہ (رقم علیحدہ یااس آدمی کی ملکیت دوسری رقم کےجمع کرنےسے)نصاب کوپہنچ گئی ہو، وہ اس لیے کہ یہ رقم اس قرض کی طرح ہےجس کےواپس ملنے کاامکان قوی ہے۔
دوسری صورت کاحکم یہ ہےکہ جب بھی ڈپازٹ کی رقم ملے،یعنی چاہے ایک سال بعد ملےیا دس سال بعد،صرف ایک سال کی زکاۃ دی جائے کیونکہ ایسا مال جس کے ملنے کی امید نہ ہو اسے مال ضمار کہا جاتاہے اوراس میں صرف ایک سال کی زکاۃ دی جاتی ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کےاس عمل پرہےجسے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نےاپنےمجموعہ احادیث مؤطا میں روایت کیا ہےکہ عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نےاپنےبعض گورنروں کولکھ کرپیغام بھیجا کہ جومال لوگوں سےناحق وصول کیاگیاہے اسے اس کےمالکوں کولوٹایاجائے اوراس مال پرجتنے سال گزرے ہیں ان سب کی زکاۃ وصول کی جائے۔
پھر انہوں نے ایک دوسرا حکم نامہ بھیجا کہ نہیں صرف ایک سال کی زکاۃ وصول کی جائے کیونکہ یہ مال،مالِ ضمار ہے۔[1]
[1] الموطا،الزکاۃ، حدیث:597