کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 322
پہلی حدیث بالکل واضح ہےکہ کسی بھی مال پر(بشرط تکمیل نصاب) ایک سال گزرنے کےبعد زکاۃ واجب ہے اور سال میں زکاۃ ایک ہی دفعہ واجب ہوتی ہےاور یہی مفہوم ہےساتویں حدیث کا، کہ اگر سال میں ایک دفعہ زکاۃ دے دی تو دوبارہ اس سال اس پرزکاۃ نہیں ہوگی،بالکل ایسے ہی جیسے کہ اگر ایک نماز ایک دفعہ ادا کرلی جائے تواسےدوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگلے دن دوبارہ اسی نماز کاوقت آنے پروہ نماز پڑھی جائےگی، ایسے ہی رمضان کےروزہ کاحکم ہے۔ صرف حج ایسی عبادت ہےجوعمر میں ایک دفعہ فرض ہوتی ہے اورزائد حج نفلی حج کےحکم میں آتاہے۔زکاۃ مالی عبادت ہےجورمضان کی طرح ہرسال واجب ہوتی ہے۔ دوسری حدیث سےمعلوم ہواکہ زیورات پرہرسال زکاۃ دینی چاہیے یہ نہیں کہ ایک سال زکاۃ دےدی تو ساری عمر کےلیے اب ان زیورات میں زکاۃ نہیں۔ تیسری اورچوتھی روایت سےمعلوم ہواکہ یتیموں کی مصلحت کی خاطر ان کےمال میں تجارت کاحکم دیا گیا اور وہ اس لیے کہ اگر اس مال کو تجارت کےذریعے سےبڑھایا نہ گیا توہر سال زکاۃ دینے کی صورت میں چند سالوں کےبعد یہ مال ختم ہوجائے گا۔ظاہرہےاگر ایک دفعہ ہی زکاۃ واجب ہوتی توپھر اس ہدایت کی ضرورت نہ تھی۔ پانچویں اورچھٹی روایت سےمعلوم ہوا کہ اگر قرض ایسے شخص کودیا گیا ہےجوثقہ ہے،امانت دار ہےتوپھر گویا یہ قرض ایک محفوظ جگہ پڑا ہوا ہے،اس لیے قرض دار کوہر سال اپنے مال کی زکاۃ نکالتےرہنا چاہیے لیکن اگر قرض ایسے شخض کودیا گیا ہےجس سےمال واپس ملنے کی ا مید نہیں توپھر جب بھی مال واپس ملےتو صرف ایک سال کی زکاۃ دے دی جائے۔