کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 321
کہ صدقہ(زکاۃ) اسے کھاجائے۔‘‘[1] 4۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ انہوں نے کہا: یتیموں کےمال میں تجارت کرو تاکہ صدقہ انہیں کھانہ جائے۔[2] 5۔ عبداللہ بن عباس اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نےکہا:جس کسی نے کسی کوقرض دیاتو اگر قرض دارثقہ ہےتو وہ اس کی زکاۃ ہرسال دیا کرے۔[3] 6۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نےاپنے ان گورنروں کووہ مال ان کےحقداروں کوواپس دینے کاحکم دیا جوانہوں نے زبردستی ان سےلیا تھا اور کہا:یہ لوگ اس مال میں سے پچھلے تمام سالوں کی زکاۃ ادا کریں،پھر ایک دوسرا خط لکھ کر بھیجا کہ ایسے اموال میں سےصرف ایک سال کی زکاۃ دی جائے کیونکہ یہ مال ضمار(ایسا مال جس کےملنے کی امید نہیں تھی) کی تعریف میں آتاہے۔[4] 7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’ اگرتم اپنے مال کی زکاۃ دے دو توتم نےوہ فرض ادا کردیا توتم پرعائد ہوا تھا۔، ، [5] 8۔ حدیث (ما نقص مال عبدمن صدقة) ’’ صدقہ کی وجہ سے کسی آدمی کےمال میں کمی نہیں آتی۔‘‘[6] ان احادیث سےمندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:
[1] جامع الترمذی، الزکاۃ، حدیث: 641 [2] السنن الکبریٰ للبیہقی:6؍ 2، وسنن الدار قطنی : 2؍ 110 [3] السنن الکبریٰ للبیہقی: 4؍ 149 [4] المؤطا، الزکاۃ ، باب الزکاۃ فی الدین ، حدیث: 594، والسنن الکبریٰ للبیہقی: 4؍ 149 [5] جامع الترمذی، الزکاۃ، حدیث: 618، وسنن ابن ماجہ ، الزکاۃ ، حدیث: 1788 [6] جامع الترمذی، الزہد، حدیث: 2325،اسی معنی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث صحیح مسلم میں ہے ۔ دیکھیے:(صحیح مسلم ، البر والصلۃ ، حدیث: 2588)