کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 315
پرہوں کہ دونوں کےاوقات میں رات کےکسی حصہ کا بھی اشتراک نہ ہو۔ 3۔ اگر مشرق میں چاند واقعی نظر آجائے توتمام مغربی ممالک میں ایسے چاند کادیکھا جانا یقینی ہوجاتاہے کیونکہ مغربی ممالک میں مغرب کا وقت بعد میں ہوگا اور اس لحاظ سے چاند کی عمر گھنٹوں کےاعتبار سےپڑھتی جائے گی اوراس کی رؤیت کاامکان بھی زیادہ ہوتا چلا جائے گالیکن اگر اس کا عکس ہو، یعنی کسی مغربی ملک میں چاند کی رؤیت ہوئی ہوتو مشرقی ممالک میں یہ چاند اگلے دن کےغروب کےبعد ہی نظر آئے گا،یعنی ایک دن کا فرق واقع ہوجائےگا۔ چونکہ سعودی عرب اوردوسرےعرب ممالک ہندوستان سےمغرب میں ہیں،اس لیے سعودی عرب کی رؤیت اہل ہندوستان کےلیے قابل حجت نہیں ہوگی،البتہ یورپ اورامریکہ کےلیے یقیناً قابل حجت ہوگی۔ ایک وسیع وعریض ملک جیسے ہندوستان یامریکہ میں تواختلاف مطالع کااعتبار کیا جاسکتاہےلیکن ایک ہی شہر میں رمضان شروع کرنے یاعید منانے پراختلاف کرنا ناقابل فہم ہے،گواب تک ایسا ہوتاچلا آرہاہے، خود برطانیہ میں بلکہ شہرلندن میں بعض دفعہ دو مختلف دن عیدیں منائی جاتی رہی ہیں،پہلے دن وہ لوگ عید مناتےہیں جو بلاد عربیہ اورخاص طورپر سعودی عرب کی رؤیت پراعتماد کرتےہیں اوردوسرے دن وہ لوگ جورؤیت علمی(یعنی فلکیاتی حساب کےمطابق) کےقائل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ رؤیت بصری اورعلم فلکیات میں مطابقت پیدا کی جائے،یعنی 29 ویں شب کوچاند دیکھنےکی کوشش کی جائے لیکن ایسی رؤیت کوتسلیم نہ کیاجائے،اگر فلکیاتی اعتبار سے اس شب چاند سورج کےغروب ہونے سےپہلے ہی غروب ہوچکا ہے،یعنی مطلع