کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 306
جواب: اس ضمن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کےفتویٰ کاحوالہ دینا مناسب رہےگا،ان سے پوچھا گیاکہ آیا ایک مسلمان کےلیے جائز ہےکہ وہ ایک عیسائی مریض کی عیادت کرے اوراس کےمرجانے پراس کےجنازے کےساتھ جائے؟ اوریہ کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی ایسا کام کرے توکیا اس پرگناہ لازم ہوگا؟ شیخ الاسلام نےجواب دیا: الحمدللّٰه رب العالمین ........... جنازہ کےساتھ تونہ جائے، البتہ عیادت میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ اس طرح اس کی تالیف قلب ہوگی کہ شایدوہ اسلام قبول کرلے لیکن اگروہ مرجاتاہےتووہ جہنمی ہے، اس لیے اس پرنماز جنازہ نہیں پڑھی جاسکتی۔ واللہ اعلم[1] عیادت کےبارےمیں دو احادیث ملاحظہ ہوں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےایک یہودی لڑکے کی عیادت کی اور اسےکہا:’’اسلام قبول کرلو۔‘‘[2] اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےچچا ابوطالب کومرض الموت کی حالت میں کہا: ’’ چچا!لا الہ الا اللہ کہو۔‘‘ [3] زیارت قبر کےسلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی،خود بھی روئے اوردوسروں کوبھی رلایا، پھر کہا:’’ میں نے اپنےرب سےاجازت مانگی کہ اپنی ماں کےلیے دعائے مغفرت کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔پھراجازت مانگی کہ ان کی قبر کی زیارت کروں تومجھے اس کی اجازت دی گئی۔ توقبروں کی
[1] روائع المسائل والفتاویٰ، ص :18 [2] صحیح البخاری،الجنائز،حدیث :1356 [3] صحیح البخاری،الجنائز،حدیث :1360،وصحیح مسلم،الایمان، حدیث:24