کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 290
جاتی ہے۔
اسی طرح نماز عصر سورج کےزردی مائل ہونے کےبعد ادا کی جاتی ہے۔کیاان نمازوں کاایسی مسجد میں ادا کرناشرعاً درست ہوگا جبکہ عشاء کاوقت شروع ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی ہو؟
جواب:
عصر کی نماز کاوقت ایک مثل پرہوجاتا ہے، یعنی زوال کےبعد جب کسی بھی چیز کاسایہ اس کےبرابر ہوجائے،[1]
اس وقت ظہر کاوقت ختم ہوجاتاہے اورعصر کاشروع ہوجاتاہے۔عصر کااول وقت میں پڑھنا افضل ہےاوراتنی تاخیر کرناکہ سورج زردی مائل ہوجائے مکروہ ہے،اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایسی نماز کومنافق کی نماز قرار دیا ہے۔[2]
احناف کےنزدیک عصر کاوقت دومثل پرہوتا ہے، اس لیے وہ عموماً تاخیر سے پڑھتےہیں لیکن پھر بھی منافقت کےوصف سےبچنے کےلیے زیادہ تاخیرنہیں کرنی چاہیے۔ اگر آپ کسی مسجد میں اول وقت باجماعت نماز پڑھ سکتےہوں یااہل خانہ کےساتھ مل کر اول وقت نماز پڑھ لیں توبہتر ہوگا لیکن اگر بڑی جماعت کاثواب لینے کےلیے محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھ لیں جہاں مثل ثانی کےمطابق نماز ہوتی ہوتوان شاء اللہ
[1] سایہ ایک مثل ہونے سےمراد یہ ہےکہ ہرچیز کاسایہ اس کے سایہ اصلی کونکالنے کےبعد اس چیز کےبرابر ہوجائے۔سایہ اصلی ہرچیز کےاس سایے کوکہتےہیں جوآفتاب کےبلند ہونے کی وجہ سے گھٹتے گھٹتے زوال کےوقت باقی رہ جاتاہے،یعنی عین زوال کےوقت جوکسی چیز کاسایہ ہوتاہےوہ اس کا سایہ اصلی کہلاتاہے۔ سایہ اصلی سردیوں میں لمبا اورگرمیوں میں چھوٹا ہوتا ہے۔جب کسی چیز کاسایہ اس کےسایہ اصلی کےعلاوہ اس کےبرابر ہوجائے تواسے ایک مثل سایہ کہتےہیں،مثلا: ایک چھڑی 3 فٹ لمبی ہے،اس کا سایہ اصلی 2 انچ ہے توجب اس چیز کاسایہ 3 فٹ دوانچ ہوگا تو ایک مثل وقت ہوجائے گا اوریہ عصر کا وقت ہے۔اس کی وضاحت سنن نسائی کی ایک روایت سےہوتی ہے۔دیکھیے(سنن النسائی،المواقیت، باب آخر وقت المغرب،حدیث :525 )(ناصر)
[2] صحیح مسلم ، المساجد و مواضع الصلاۃ، حدیث: 622