کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 283
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ صبح کی نماز میں اپنی اوڑھنیوں میں لپٹی ہوئیں،حاضر ہوا کرتی تھیں۔ نماز کےختم ہونے کےبعد اسی حالت میں اپنے گھر لوٹتی تھیں کہ اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔[1] گویا مسجد میں فجر منہ اندھیرے پڑھی جاتی تھی جس میں مردو عورت دونوں شامل ہوتے تھے۔ 25۔ ’’ عورت کوجہری نماز میں بلند آواز سےقراءت جائز نہیں،بعض کےنزدیک اس سےنماز فاسد ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ بات بھی بلا دلیل لکھی گئی ہے۔ عورت یاتو انفرادی نماز پڑھے گی اوریامردوں کی جماعت کےساتھ اور یا پھر عورتوں کی جماعت کےساتھ۔ مردوں کی جماعت میں تومرد امام ہی قاری ہوگااور اگر عورتوں کی نماز علیحدہ سے ہورہی ہوتوجہری نماز میں بہرصورت عورتوں کی امام عورت قراءت کرے گی اوریہ قراءت صرف عورتوں کےلیے ہوگی،اس لیے اس میں اونچی اورنیچی قراءت کی تفریق بےمعنی ہےاوراگر انفرادی نماز پڑھ رہی ہے تومردوں کی انفرادی نماز کی طرح اسے اختیار ہے،چاہے تو جہری قراءت کرے یاسری۔ 26۔ پہلے بیان ہوچکاہے۔ 27۔ ’’عورت اذان نہ دے اورنہ مسجد میں اعتکاف ہی کرے ۔‘‘ اس ضمن میں دونوں طرح کےآثار ملتےہیں۔ صحابہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ[2]اورتابعین میں سے عطاء،حسن بصری،سلیمان،
[1] صحیح البخاری ، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 578، و صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ، حدیث: 645 [2] مصنف ابن ابی شیبہ : 1؍ 223