کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 278
(16) ’’مردوں کی امامت نہ کرے۔‘‘ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اگرمردوں میں کوئی قاری نہ ہو، جبکہ عورتوں میں قاریہ ہوتو کیا کرئے؟ اس بارےمیں کوئی حدیث یااثر صحابی موجود نہیں لیکن تابعین میں سے قتادہ کہتے ہیں:’’ اگر مرد قاری نہ ہو اور عورتیں اس کےساتھ ہوں تو وہ آگے بڑھ کرامامت کرائے، عورت اس کے پیچھے قراءت کرے، جب وہ تکبیر کہے توعورتیں اس کی تکبیر کےساتھ رکوع اورسجدہ کریں۔‘‘[1] 17- 20 ’’ عورتوں کی جماعت مکروہ ہے، جماعت کےساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، عورتوں کی جماعت ہوتو وسط میں کھڑی ہو، مردوں کی جماعت میں عورتیں پیچھے کھڑی ہوں۔‘‘ پہلا اوردوسرا جز بلا دلیل ہےجبکہ تیسرا اورچوتھا صحیح ہے۔ احادیث وآثار ملاحظہ ہوں: بروایت ریطہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کرتی تھیں اورصف میں ان کےساتھ کھڑی ہوتی تھیں۔ [2] ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بابت بھی ایسا ہی منقول ہے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےام ورقہ کےلیے ایک مؤذن مقرر کردیا تھا جوان کےلیے اذان دیتا تھا اورانہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنےگھر والوں کوفرض نماز پڑھائیں۔[4]
[1] مصنف عبدالرزاق : 3؍ 141 [2] الطبقات الکبریٰ الابن سعد:8؍ 483،ومصنف عبدالرزاق:3؍141،مصنف ابن ابی شیبہ:2؍89،وسنن الدارقطنی :1؍404، وسنن البیہقی:3؍131 [3] مصنف ابن ابی شیبہ :2؍88 [4] سنن ابی داؤد،باب اقامۃ النساء،حدیث:592،ومسند احمد:6؍405