کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 277
روا نہیں رکھا گیا(یعنی دورکعت کےبعد حالتِ افتراش اور چاررکعت کےبعد حالت تورک) لیکن اگر کوئی عورت آسانی کی خاطر دوسری طرح بیٹھے تواس پرنکیر نہیں کرنی چاہیے۔ باقی رہا دائیں ہاتھ کی انگلیاں ملاکر رکھنا توبروایت مصنف عبدالرزاق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پررکھتے تھےاور اپنی دائیں ہتھیلی کی تمام انگلیاں مٹھی کی شکل میں موڑ کررکھتے تھےاور اپنی شہادت کی انگلی سےاشارہ کیاکرتےتھے۔[1]
اس حدیث سے دائیں اوربائیں ہاتھ کی ہیئت کافرق معلوم ہوتاہے، یعنی دائیں ہاتھ کومٹھی بنا کر اوربائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کررکھتےتھے،انگلیوں کوجوڑ کر رکھے یا کھلارکھے،اس کی تصریح نہیں ہے،نہ مردوں کےلیے نہ عورتوں کےلیے،اس لیے اس ہیئت کوعورتوں کےساتھ مخصوص کرنا بلادلیل ہے۔
15) ’’ نماز میں کوئی واقعہ پیش آجائے تومردوں کی طرح سبحان اللہ نہ کہے بلکہ تالی بجائے، یعنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پرمارے۔‘‘
ایسا کرنا سہل بن سعد الساعدی سےمروی حدیث سےثابت ہے[2] گواس کاتعلق ہئیت صلاۃ سےنہیں ہے بلکہ یہ ان چیزوں میں داخل ہےجوامام کی غلطی کوٹوکنے کےلیے بطور حادثہ نماز کےدوران میں کی جاتی ہیں۔
[1] بائیں ہتھیلی کو بائیں گھٹنے پر رکھنے کے الفاظ مجھے مصنف عبد الرزاق میں نہیں ملے، ہاں ! بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھنے کے الفاظ مرفوعاً مصنف عبد الرزاق (2؍ 195) میں موجود ہیں ۔ یہ الفاظ مسند احمد(4؍ 318) میں بھی موجود ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشہد میں گھٹنوں پر یار انوں پر ہاتھ رکھنے کے بارے میں احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں جس کی تفصیل کتب احادیث میں ہے ،لہٰذا جس مسنون طریقے سے بھی آدمی تشہد میں ہاتھ رکھ لے ٹھیک ہے ۔
[2] صحیح البخاری ، الجماعۃ والامامۃ ، حدیث: 486، و صحیح مسلم ، الصلاۃ ، حدیث: 421