کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 271
اب یہاں ملاحظہ فرمائیے کہ خود حنفی مذہب میں بھی عطاء اورحماد کےقول کو نہیں لیا گیا، کیونکہ حدیث میں آثارصحابہ میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانا مروی ہے۔ 2۔ ’’ عورت اپنے ہاتھ آستینوں یا دوپٹے سےباہر نہ نکالے۔‘‘ اس فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 3۔ ’’ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ پررکھے۔‘‘ چونکہ نماز کی عمومی احادیث میں دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پررکھنا وارد ہے، [1] اس لیے اس کیفیت کوعورتوں سے خاص کرنے کاکوئی سبب نہیں ہے۔ 4۔ ’ ’ ہاتھ سینے پرباندھے۔‘‘ جوحدیث ہاتھوں کےسینے پرباندھنے سےمتعلق ہےوہی صحیح حدیث ہے، جس کےراوی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہیں اور جسے ابن خزیمہ نے ورایت کیا ہے ۔[2] اس کےمقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں ہاتھ ناف سےنیچے باندھنے کاتذکرہ ہے۔[3] وہ ایک راوی عبدالرحمٰن بن اسحاق کی وجہ سے انتہائی ضعیف حدیث ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ جب آپ نےوائل بن حجررضی اللہ ع نہ کی حدیث کوعورتوں کےلیے تسلیم کرلیا تومردوں کےلیے اسےتسلیم کرنے میں کیا امرمانع ہےجبکہ حدیث میں مرد اورعورت کی تخصیص نہیں ہے۔ 5۔10 یہ چھ امور رکوع سےمتعلق ہیں،یعنی: ’’ عورت رکوع میں تھوڑا جھکے، ہاتھوں پرسہارا نہ لے،رکوع میں ہاتھ کی انگلیاں سمیٹ کررکھے، پھیلانا منع ہے،رکوع میں صرف
[1] سنن ابی داؤد، الصلاۃ، حدیث: 727، و سنن النسائی، الافتتاح، حدیث: 890 [2] صحیح ابن خزیمہ : 1؍ 243 [3] سنن ابی داؤد ، الصلاۃ ، حدیث: 756