کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 270
بعد صحابی سےصادر ہوا ہواورقرآن وسنت کےخلاف ہوتو وہ قابل حجت نہیں۔
*جہاں تک تابعین کی آراء اورفتوؤں کا تعلق ہےتووہ اقوال صحابہ کی طرح حجت نہیں ہیں لیکن اگرکسی مسئلے میں کوئی قول نہ مل رہاہوتوتابعین کےاقول سےاس مسئلے کوحل کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے۔
اس تمہید کےبعد ان ستائیس فروق کی طرف آئیے جن کا شروع میں حوالہ دیا گیا ہےاور پھردیکھیں کہ مندرجہ بالا معیار کےمطابق وہ کہاں تک قابل قبول ہیں۔
’’ عورت تکبیر تحریمہ کےلیے مندرجہ بالا معیار تک ہاتھ اٹھائے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاکثر توکندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے،[1]لیکن بعض احادیث میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے کاذکر بھی ہے۔[2] صحابیات میں سے ام درداء الکبری(خیرہ بنت ابی حدردالاسلیمہ رضی اللہ عنہا) کےتذکرہ میں ملتاہے کہ وہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھیں۔[3] تابعیات میں سے حفصہ بنت سیرین کابھی یہی عمل تھا۔[4]
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس بارےمیں کہ ہاتھ کتنے اٹھائے جائیں،احادیث میں ایسی کوئی بات وارد نہیں ہوئی جس سےرفع الیدین کےمسئلے میں مرد و عورت میں فرق کاپتہ چلے۔[5]
تابعین میں سے عطاء اورحماد نےعورتوں کےلیے اپنی چھاتیوں تک ہاتھ اٹھانے کاذکر کیاہے۔[6]
[1] صحیح البخاری، صفۃ الصلاۃ ، حدیث: 735، و صحیح مسلم ،الصلاۃ ، حدیث: 390
[2] صحیح مسلم ، الصلاۃ، حدیث: 391
[3] مصنف ابی شیبہ : 1؍ 239، و جزء رفع الیدین للبخاری، ص: 23
[4] مصنف ابن ابی شیبہ :1؍ 239
[5] نیل الاوطار : 2؍ 197
[6] مصنف ابن ابی شبیہ : 1؍ 239