کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 253
ہوں، اجتماعی طریقے پرقرآن پڑھتے ہوں اورپھر اس کاثواب میت کوبخشتے ہوں۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں: خیرالقرون میں جوامر مسلمانوں کےدرمیان معروف تھا کہ وہ نماز،روزے اورتلاوت کی فرض اورنفل تمام عبادات کیا کرتےتھے جومشروع ہیں اوراللہ کےحکم کےمطابق مومن مردوں اورعورتوں کےلیے دعا کیا کرتےتھے، زندوں کےلیے بھی اورمردوں کےلیے بھی۔ سلف کی یہ عادت نہ تھی کہ اگر وہ نفلی نماز،روزہ، حج ادا کرتےیاقرآن پڑھتے تو اس کاثواب کسی میت کوہدیہ کرتے، چاہے وہ ان کے رشتے داروں میں سے ہوتےہو یاعام مسلمانوں میں سے۔[1] اب آخر میں شیخ ابن باز اورشیخ عبداللہ بن قعود کےدستخطوں سےجاری شدہ فتویٰ بھی ملاحظہ ہو جو سعودی عرب کےدارالافتاء سےصادر ہوا ہے۔ فتویٰ نمبر 2232: ’’ ہماری معلومات کےمطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن پڑھ کراس کاثواب اپنے فوت شدہ قریبی رشتے داروں یا دوسرےمسلمانوں کوبخشا ہو۔ اگر اس طرح ثواب پہنچتا توآپ ضرور ایسا کرتےبلکہ امت کوبھی بتاتے تاکہ وہ مردوں کو نفع پہنچا سکتے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں پربہت ہی شفیق تھے۔ آپ کےبعد خلفائےراشدین اورتمام صحابہ بھی آپ کےاسی طریقے پرگامزن رہے،ہمار ے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ ان میں سے کسی نے قرآن کاثواب کسی اور کوبخشا ہو۔ تمام خیرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےراستے اورآپ کےصحابہ کےراستے پرچلنے میں ہےاورتمام شربدعات اورنئی چیزوں کےپیچھے لگنے میں ہے۔ رسول
[1] فتاوی ابن تیمیہ : 24؍ 322۔ 323