کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 249
صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ،أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ،أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ)
’’جب ابن آدم مر جاتا ہے توس وائے تین چیزوں کے اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے یا نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘ [1]
اس حدیث میں بیان کردہ تینوں چیزیں دراصل میت کااپناہی عمل ہےجواس کی موت کےبعد بھی جاری ہے۔ صدقہ جاریہ جیسے کنواں کھدوانا،سرائے بنانا،ہسپتال قائم کرناوغیرہ جسےاس نے اپنی زندگی میں قائم کیاتھا اورجب تک وہ باقی ہےاس کاثواب میت کوملتا رہےگا۔
وہ علم جوکتابوں کی شکل میں محفوظ ہوچکا ہے(اوراب توکیسٹ اورسی ڈی کی شکل میں بھی محفوظ ہوجاتاہے) وہ بھی میت کا اپنا تحریر کردہ ہے۔
اولاد انسان کی اپنی کمائی ہے(مااغنىٰ عنه ماله وماكسب)’’ ابولہب کےکام نہ اس کا مال آیااور نہ اس کاکسب ہی(یعنی اولاد)۔‘‘ [2]
اس لیے اولاد کی دعا خصوصی طورپرمیت کونفع دے گی۔
2۔ عام لوگوں کی دعا:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتےہیں: ’’ اورجولوگ ان کےبعد آئے،(مہاجرین وانصار کےبعد) وہ کہتےہیں: اےہمارے رب! ہماری مغفرت کراور ہمارے ان بھائیوں کی جوایمان کی حالت میں ہم سےپہلے گزرچکے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان والوں کےلیے کوئی کینہ نہ رکھ، بے شک توانتہائی مہربان اورحم کرنےوالا ہے۔‘‘[3]
[1] صحیح مسلم ، الوصیۃ ، حدیث: 1631
[2] اللہب 111: 2
[3] الحشر 59: 10