کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 248
﴿واَن لَّيسَ لِلاِنسان إلا ماَ سَعيٰ﴾ ’’ اورانسان کےلیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے خود کوشش کی ۔‘‘[1] اس آیت کامطلب واضح ہےکہ انسان اپنے اعمال کاچونکہ خود مالک ہے،اس لیے قیامت کےدن وہ اس کےکام آئیں گے لیکن اس سےاس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسرے کےعمل سےفائدہ بھی حاصل کرسکے، بالکل ایسے جیسے ایک شخص دوسرے کےمال سےفائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اب حل طلب مسئلہ یہ ہےکہ آیا مرنےکےبعد بھی وہ دوسروں کےعمل سےفائدہ اٹھا سکتاہے؟ اور آیا ایک شخص اپنے عمل کوکسی گزرجانے والے شخص کےلیے ہدیہ کرسکتاہے؟ جواباً عرض ہےکہ عبادات میں سے مالی عبادات میں ایسا کرناجائز ہے، جیسے میت کی طرف سے صدقہ کرناکئی نصوص سےثابت ہے۔بدنی عبادات میں صرف انہی اعمال تک محدود رہنا چاہیے جورسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہیں، چونکہ عبادات کےمسئلے میں قیاس جائز نہیں،اس لیے وہ چیز جس کا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت نہیں اس کا جواز نہیں دیا جاسکتا ۔ اب آئیے ان نصوص کی طرف جن سےمالی یابدنی عبادات کاایک میت کی طرف سےکرناثابت ہے: 1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: ﴿ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ
[1] النجم 53: 39