کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 242
پڑھا دیں۔[1] اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایسا کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ میں تروایح پڑھنے کاجواز پیدا نہیں ہواتھا ؟ جواباً عرض ہےکہ تراویح رات کی نماز(قیام اللیل) کانام ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رات کی نماز گھر میں ادا کیا کرتےتھے۔ماہ رمضان میں تین دن آپ نے لوگوں کےساتھ جماعت کی شکل میں بھی ادا کی لیکن چوتھے دن لوگوں کےاصرار کےباوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنےحجرے سے اس نماز کوباجماعت ادا کرنے کےلیے نہیں آئے۔ جب لوگوں نے اصرار بڑھایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’ مجھےاس بات کا ڈر ہےکہ کہیں یہ نماز تم پرفرض نہ کردی جائے۔‘‘ [2] اس مثال سےبھی معلوم ہوتا ہےکہ تروایح باجماعت کاجواز موجود تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک رکاوٹ کی بنا پراسے تسلسل کےساتھ ادا نہیں کیا، وہ اس لیے کہ وحی کا نزول جاری تھا اورعین ممکن تھاکہ یہ نماز فرض قرار دے دی جاتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد یہ رکاوٹ باقی نہ رہی، یعنی اب وحی آنے کااورتراویح باجماعت فرض ہونے کااندیشہ باقی نہ رہا، اس لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نےاس سنت کودوبارہ جاری کردیا۔ بعض دفعہ مصالح مرسلہ اوربدعت گڈمڈ ہوجاتےہیں شریعت نےپہلے کااعتبار کیا ہےلیکن دوسرے کانہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتاہےکہ مصالح مرسلہ کےبارے
[1] صحیح البخاری، حدیث: 2010 ، و مؤطا امام مالک ، الصلاۃ فی رمضان ، حدیث: 250، 251 [2] صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب ، حدیث: 7290، و صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین ، حدیث: 761، و مسند احمد : 6؍ 232