کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 241
ڈالی ہےیہاں تک کہ کعبہ کوبھی بدل ڈالا ہے، چنانچہ کعبہ کی عمارت اسی طرح چلی آئی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ میں تھی۔عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نےاپنےزمانہ خلافت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ خواہش کوپورا کرنےکےلیے کعبہ کی تعمیر مکمل کروادی اور اس کےدروازے بھی بنوادیے،کسی صحابی نےاس عمل کوبدعت قرار نہیں دیا[1] کیونکہ یہ بدعت کی تعریف میں نہیں آتا تھا۔ اب ہوا کہ جب بنوامیہ کی حجاز کی بازیابی کےلیےابن زبیر سےجنگ ہوئی تو حجاج نےفتح حاصل کرنے کےبعد ابن زبیر کی مخالفت میں کعبہ کوازسرنوپہلی حالت پرلوٹادیا۔[2] ابن زبیر کی تعمیر64ھ ہوئی اوردس سال بعد حجاز کی تعمل عمل میں آئی۔ عباسی خلیفہ محمد مہدی بن منصور نےبھی اپنے زمانہ خلافت میں کعبہ کی تکمیل کرنا چاہی لیکن امام مالک نےاسے مصلحتاً اس کام سےروک دیا۔وہ مصلحت یہ تھی کہ کعبہ بادشاہوں یاخلفاء کےدرمیان ایک کھیل بن کررہ جائے گا۔ ایک بادشاہ اسے تعمیر کرے گا اور دوسرا بادشاہ صرف مخالفت کی بنا پراسے گرادے گا، چنانچہ ابن منصور نےامام مالک کی بات مان لی اور اس وقت سےکعبہ اس حالت میں ہےجس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے چھوڑا تھا۔ دوسری مثال نماز تراویح کاباجماعت ادا کرناہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نےاپنے زمانہ خلافت میں لوگوں کورمضان کی راتوں میں علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے دیکھا تو انہوں نے حضرت ابی بن کعب کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی جماعت کےساتھ گیارہ رکعت
[1] صحیح البخاری،العلم،حدیث :126، و صحیح مسلم ، الحج ،حدیث: 1333 [2] صحیح مسلم ، الحج،حدیث: 1333