کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 238
سےصادق آتی ہے۔ اولاً: خیرالقرون کوتوچھوڑئیے،اسلام کی پہلی چھ صدیوں میں عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی نہیں جانتاتھا۔ اس بدعت کاموجد 604ھ میں عراق کےشہراربل کاحکمران ابوسعید کوکری تھا، جیسا کہ امام سیوطی نےاپنےرسالے ’’حسن المقصد فی عمل المولد ‘‘ میں لکھا ہے۔ ثانیاً : اسے ایک شرعی تہوار(جیسے عیدالفطر یاعیدالاضحیٰ)سےمشابہت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ثالثاً: اسےثواب سمجھ کرکیاجاتاہےاوراسی وجہ سے جواس بدعت کاقائل نہ ہواس پر نکیرکی جاتی ہے، اسےوہابی کانام دے کربدنام کیا جاتاہے۔ ابن حجر ہیثمی نےبدعت کی تعریف یوں کی ہے: هى مالم يقم دليل شرعى علىٰ أنه واجب أومستحب ’’ بدعت وہ چیز ہےکہ جس کےوجوب یااستحباب پرکوئی شرعی دلیل نہ ہو۔‘‘[1] اب ظاہر ہےشرعی دلیل کتاب وسنت ہی سےلائی جاسکتی ہےاوریہ دونوں اس بدعت کےذکر سےخالی ہیں۔ بدعت کی تیسری تعریف یہ ہےکہ ہروہ عمل جونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سےثابت ہو، نہ خلفائے راشدین ہی کی سنت سے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماگئےہیں: (عليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى)
[1] الفتاوی الحدیثیۃ ،ص: 200