کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 235
حروف‘‘ والی حدیث کی بنیاد پرقرآن کریم کوسات قراءتوں کےمطابق پڑھنے میں کج فہمی کی بنا پر پیدا ہونے والے اختلاف کوبخوبی ختم کردیا گیاتھا۔ یہ سات نسخے بشمول مدینہ منورہ،سات شہروں میں بھیجے گئے تھے۔ گوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےباقی دوسرے مصاحف کوجلا دیا تھا تاکہ کسی قسم کااشتباہ پیدا نہ ہوسکے لیکن معلوم ہوتا ہےکہ پھر بھی کئی صحابہ سےمنسوب چند نسخے نسل درنسل منتقل ہوتے رہےتھے،جن میں ابوموسیٰ اشعری اوردوسرے صحابہ سےمنسوب مصاحف شامل ہیں۔ اختلاف مصاحف کے موضوع پرمشتمل بہت سی کتابیں انہی مصاحف کی روشنی میں تحریر کی گئیں،جن میں سے ایک عبداللہ بن ابوداؤد کی کتاب المصاحف ہے،جوبہت سارے مستشرقین کےلیے قرآن کی آیات میں اختلاف ظاہر کرنے کی غرض سےبنیاد بنی رہی ہے۔[1] خیال رہےکہ مصحف عائشہ کےنام سےکسی مصحف کاوجود نہ تھا۔[2] جونسخہ زید بن
[1] عبداللہ بن اوبوداؤد کی ثقاہت محل نظر ہےجس کی بنا پر بعض محققین نےکتاب المصاحف کومعتبر قرار نہیں دیا۔ اگر ابن ابوداؤد کی ثقاہت تسلیم کربھی لی جائے تب بھی ان کی یہ کتاب ایسی نہیں کہ اس پر آنکھ بند کرکے یقین کیاجاسکے کیونکہ اس میں موضوع اورضعیف روایات بھی پائی جاتی ہیں۔مستشرقین نےجن روایات سےآیات قرآنیہ میں صحابہ کےمابین پائے جانےوالے اختلاف کوثابت کرنے کی کوشش کی یہ موضوع اورضعیف روایات ہی کی قبیل سےتعلق رکھتی ہیں۔ (ناصر) ۔ [2] ڈاکٹر صاحب سے یہاں تسامح ہواہے۔ مصحف عائشہ کےنام سےایک مصحف کاوجود رہاہےجس کا تذکرہ بعض صحیح روایات میں موجودہے۔دیکھیے: (مسند اسحاق بن راہویہ: 3؍ 1042،ومصنف عبدالرزاق:1؍578، وتفسیرطبری :5؍175،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کےلیے اس مصحف کوان کےغلام ابویونس رحمۃ اللہ علیہ نےکتابت کیاتھا۔دیکھیے(صحیح مسلم، المساجد،باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ لوسطیٰ ھی صلاۃالعصر، حدیث :629 )ہاں ! اگر ڈاکٹر صاحب کےاس کلام سے مرادیہ ہوکہ دورنبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں لکھا جانےوالا مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس نہیں تھا تویہ بات صحیح ہے۔(ناصر)۔