کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 229
وقفہ ہے؟ آپ ‎ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’ چالیس سال۔‘‘ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ میں نے پوچھا:اور پھر؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’ پھر جہاں کہیں تمہیں نماز کاوقت آجائے تونماز پڑھ لو، اس لیے کہ ہرجگہ مسجد ہے۔‘‘[1] واضح رہے کہ دونوں مساجدکی تعمیر میں چالیس سال کاوقفہ اس طرح ہوسکتاہے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام نےدونوں تعمیر کی ہو، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےکعبہ کوبنیادوں سےاٹھایا تھا،یعنی بنیادیں موجود تھیں،باقی عمارت منہدم ہوچکی تھی۔اور پھر حضرت داؤدعلیہ السلام کےآخرزمانےمیں ہیکل کی تعمیر شروع ہوئی،جوحضرت سلیمان علیہ السلام کےزمانےمیں پایۂ تکمیل کوپہنچی،اس لیے ہیکل سلیمانی کہلائی اورقرآن نے اسےمسجد اقصیٰ سےتعبیر کیاہے۔ خانہ کعبہ کی عمارت میں جنت کےایک پتھر کا لگنا اسے ایک ندرت عطا کرتا ہےاور اسی لیے حضرت آدم علیہ السلام کےساتھ اس پتھر کواتارا گیا ہوگا۔ جہاں تک حجراسود کےسیاہ ہوجانے کاسوال ہےتوذہن اس حدیث کی طرف جاتاہے جس میں اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےدل کی مثال دی ہےکہ گناہ کرنے پر دل میں ایک سیاہ دھبا لگ جاتا ہےاورپھر گناہوں کی کثرت سے دل سارے کاسارا سیاہ ہوجاتا ہے۔[2] گویا حجراسود پرلوگوں کےگناہوں کاانعکاس ہوا ہے۔ قاعدہ ہےکہ آئینہ ابتدا میں صاف وشفاف ہوتاہےلیکن مدت کےبعد دھندلا ہوتا چلا جاتا ہےاورپھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس میں کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔
[1] صحیح البخاری،احادیث الانبیاء،حدیث:3366،وصحیح مسلم،المساجدومواضع الصلاۃ،حدیث:520 [2] سنن ابن ماجہ، الزھد،حدیث:4244،ومسنداحمد:2؍297