کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 218
پیش کی ہے:’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےہاتھ پربیعت کی کہ ہم تنگی اور فراخی ہرحال میں سمع واطاعت کریں گے۔، ،دیکھیے کیاخوب نکتہ نکالاہے۔ کہاں شیخ کا مرید پرمذکورہ شرط رکھنا اورکہاں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اسلام سےجوڑنا جوکہ نہ صرف لازم ہےبلکہ خود رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔ (6)اگر امت مسلمہ ایک بڑے جہاز کی مانند ہےتویہ مختلف فرقے اورطریقے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی مانند۔ شدید طوفان کی صورت میں جہاز توبچ جاتاہے لیکن چھوٹی کشتیاں غرق ہوجاتی ہیں۔ تعجب ہےکہ کتاب وسنت کےجہاز کوچھوڑ کر لوگ ان بجروں(مخصوص گول کشتیوں) پرکیوں سوار ہوتےہیں جبکہ سمندر میں تلاطم ہی تلاطم ہےاور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔ آخر میں ان چند شبہات کاجائزہ بھی لےلیا جائے جوقائلین بیعت کی طرف سے پیش کیے جاتےہیں: 1۔ ’’ تین آدمی بھی سفر کررہےہوں توایک کوامیر بنانے کاحکم ہے، چہ جائیکہ پوری جماعت ہواور اس کاامیر نہ ہو۔، ، سفر میں امیر بنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سےثابت ہےلیکن وہاں بیعت کا ذکر نہیں ہے اوریہ امارت سفر کےختم ہونے کےساتھ ہی تمام ہوجاتی ہے۔ گویا وقتی طورپر نظم وضبط کاپابند بنانے کےلیے ایسے پیر کی اطاعت لازمی قرار دی گئی لیکن اسے امامت کبریٰ پرقیاس نہیں کیا جاسکتا،جہاں دوسرے مدعی امامت کوبرداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی گردن ماردی جاتی ہے۔ 2۔ ’’ بیعت اصلاح وارشاد کونماز کی امامت کی طرح سمجھا جائے،یعنی امامت صغریٰ کو