کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 216
کیا تو آپ نےفرمایا: جب لوگ اس کودفن کرکے چلے گئے تومیں بیٹھا ہواتھا۔ میں نےدیکھا کہ عذاب کےفرشتے آئے اورانہوں نے کہاکہ اس کوعذاب کریں۔اسی وقت شیخ ہارونی(آپ کےپیرصاحب) قدس سرہ العزیز حاضر ہوئے اورکہا کہ یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ جب خواجہ نےفرمایا: بیشک اگرچہ برخلاف تھا مگر چونکہ اس نے اپنے آپ کواس فقیر کےپلے باندھا تھاتومیں نہیں چاہتاکہ اس پر عذاب کیا جائے۔ فرمان ہوا: اے فرشتو! شیخ کےمرید سے ہاتھ اٹھاؤ۔ میں نے اس کو بخش دیا۔ پھر شیخ الاسلام کی آنکھ میں آنسوبھرآئے اورفرمانےلگے: اپنے آپ کوکسی کےپلے باندھنا بہت ہی اچھی چیز ہے۔[1] سبحان اللہ ! نہ شریعت پرعمل کرنے کی ضرورت،نہ کتاب وسنت کا کوئی لحاظ، شیخ کی بیعت جنت کاپروانہ ہوگیا۔ اورپھر جس طرح سےیہاں کتاب وسنت کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔ اللہ عالم الغیب ہےلیکن یہاں شیخ عذاب قبر کاسارا انتظام دیکھ رہےہیں۔ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم فرشتہ جبرئیل سےہم کلام ہوتےتھے،یہاں شیخ عذاب کےفرشتوں سے مجادلہ کررہےہیں۔ حدیث کےمطابق انبیاء اورصلحاء کوقیامت کےدن شفاعت کاموقع دیا جائےگا،یہاں عین عذاب قبر سےپہلے ہی شفاعت کی جارہی ہے جوفوراً ہی قبولیت کےمراحل طے کرگئی۔ جس صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدوقبروں پرسے گزرنے،دونوں کوعذاب قبر
[1] شریعت وطریقت ازمولانا عبدالرحمٰن کیلانی، ص :305