کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 212
لی اوریہ اس بات پرتھی کہ وہ راہ فرار اختیار نہ کریں گے[1]اور دوسری روایت کےمطابق یہ بیعت موت پرتھی۔[2] 3۔ صلح حدیبیہ کےبعد جوخواتین ہجرت کرکےمدینہ آئیں یافتح مکہ کےمواقع پرمسلمان ہوئیں ان سےسورہ ممتحنہ کی آیت کےمطابق چند مخصوص باتوں پربیعت لی۔ یہ عورتیں چونکہ نئی نئی مسلمان ہوئیں تھیں،اس لیے ان چیزوں کاخاص طورپر ذکر کیا گیاجن میں وہ ایام جاہلیت میں ملوث رہی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنومسلم مردوں سےبھی انہی باتوں پربیعت لی تھی۔[3] 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت توہرحال میں واجب ہے، بعد کےامراء وخلفاء کےلیے بھی سمع واطاعت کی بیعت کاحکم دیا گیا لیکن اس شرط کےساتھ کہ اگر وہ گناہ کی طرف بلائیں گےتوان کی اطاعت نہیں ہوگی۔ 5۔ خلیفہ کی بیعت اتنی اہم ہےکہ اگرکوئی دوسرا خلافت کادعویدار پیدا ہوجائے تواس کی گردن مارنے کاحکم دیا گیا اوریہ اس لیے کہ اسلامی مملکت میں بدامنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ تب ہی ممکن ہےجبکہ خلیفہ کےپاس مکمل اقتدار ہو،وہ حدود نافذ کرسکتاہو،جنگ اورصلح کےمعاہدے کرسکتاہو۔ 6۔ خلیفہ کےہوتےہوئے اس کی اطاعت نہ کرنا اورجماعت سےخروج کرناقابل مواخذہ جرم ہیں۔ اور ایسے آدمی کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ایسے ہی ان لوگوں کی بھی جوکسی مذموم عصبیت (برادری، قومیت زبان،رنگ یاپارٹی )کی بنا پرقتل وقتال پرآمادہ ہوجائیں۔
[1] صحيح مسلم ، الإمارة، حديث:1856 [2] صحيح مسلم ، الإمارة، حديث: 1860 [3] المستدرک للحاکم: 2؍ 681