کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 210
ناپسندیدہ ،الایہ کہ اسے کسی گناہ کاحکم دیا جائے، ایسی صورت میں سمع واطاعت نہیں ۔‘‘[1] بیعت کادائرہ ’’ امامت کبریٰ‘‘ تک محدود ہے۔ ایسے امام ہی کی بیعت کی جاسکتی ہےجوواقعی اقتدار رکھتاہو، حدود نافذ کرسکتاہو، صلح وجنگ کےمعاہدے کرسکتا ہو۔ 3۔ ایک امام کی بیعت کےبعد دوسرے امام کی بیعت جائز نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں:’’ جس کسی نے کسی امام کی بیعت کی، اس کےہاتھ میں ہاتھ دےدیا اوراپنا دل اس کےحوالے کردیا توجب تک استطاعت ہے،اس کی اطاعت کرے،پھر اگر کوئی دوسرا شخص (امامت میں)اس کےساتھ نزاع کرےتو دوسرے شخص کی گردن ماردو۔‘‘[2] 4۔ جماعت سےخروج ناجائز ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جوشخص (امام وقت کی) اطاعت سےنکل گیا اورجماعت کوچھوڑ گیاپھرمرگیا، تووہ جاہلیت کی موت مرتاہےاورجوشخص کسی اندھے جھنڈے کےنیچے قتال کرتاہے، یاکسی عصبیت کی بنا پرغصے میں آجاتاہے تواس کی موت بھی جاہلیت کی موت ہوگی۔ اور جوشخص میری امت پرخروج (بغاوت)کرتاہے، وہ نیکوکار اورگنہگار سب کومارتا ہےاورکسی مومن کےساتھ برائی کرنے سےباز نہیں آتا اورجس سے عہد کیا ہےاس کےعہدکوپورا نہیں کرتاتو وہ مجھ سےنہیں اور میں اس سےنہیں۔‘‘ [3] 5۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد بھی بیعت کےسلسلے میں صحابہ کرام کایہی طرز عمل تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ نافع بیان کرتےہیں کہ عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن مطیع کےپاس آئے اوریہ وقت
[1] صحيح مسلم ، الإمارة، حديث: 1839 [2] صحيح مسلم ، الإمارة، حديث: 1844 [3] صحيح مسلم ، الإمارة، حديث: 1848