کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 209
ارشاد فرمایا:’’ کیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سےپچھلے تمام گناہ ختم ہوجاتےہیں اور ایسا ہی ہجرت اورحج کرنے سےپہلے جوکچھ کیاہو،سب معاف ہوجاتاہے۔‘‘[1] بیعت سے متعلق چند مزید احادیث (اور احکام) بھی ملاحظہ ہوں: حاکم وقت کی اطاعت کاعہد: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےان باتوں پربیعت کی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں گےاور اطاعت کریں گے۔ چاہے تنگی کاعالم ہویافراخی کا، چاہےپسندیدہ بات ہویا ناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کوترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کےساتھ کہ ہم صاحب امر کےساتھ جھگڑا نہیں کریں گےاور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گےاور اللہ کےبارےمیں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔[2] ابن کثیر نےالبدایہ والنہایہ میں ان الفاظ کا اضافہ کیاہےجس سےیہ معلوم ہوتاہےکہ یہ بیعت وہ ہےجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ سےآنے والوں سےمقام عقبہ (منیٰ) میں لی تھی: ’’ اور یہ کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب آئیں توہم ان کی مدد کریں گے اورجس طرح ہم اپنی جانوں،اپنی ارواح اوراپنی اولاد کادفاع کرتےہیں ویسا ہی ان کابھی دفاع کریں گےاور ہمارے لیے جنت ہوگی۔‘‘[3] یہ اطاعت مشروط ہے: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’ ایک مسلمان کوحاکم وقت کی بات سننا اوراطاعت کرنالازم ہےچاہے پسندیدہ امرہویا
[1] صحیح مسلم ، الإيمان ، حديث: 121 [2] صحيح مسلم ، الإمارة، حديث :1709 [3] البدایہ والنہایۃ : 3؍ 189