کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 202
مظاہر، جیسے اذان،پنج وقتہ نماز اورنماز باجماعت بھی تواتر عملی کےذریعے سےہم تک پہنچے ہیں لیکن دین کااکثر حصہ احادیث کےذریعے سےہم تک پہنچا ہےجوکہ آحاد ہیں۔ آحاد احادیث کواپنی مرضی یااپنی اپنی سمجھ کی بنا پر چھوڑدینا دین کےاکثر حصے کودریا برد کرنےکےمترادف ہے، اس لیے اگر کوئی بات،چاہے اس کاتعلق عقیدے سےہو یاعملی احکام سے، وہ صحیح یاحسن حدیث سےثابت ہوجاتی ہےتو اسے مانے بغیرچارہ نہیں۔ شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار کرناہے۔ یہ سزا قرآن سےثابت نہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےقول اورفعل سےثابت ہے۔[1] آحاد حدیث کوقبول نہ کرنے والے اس سزا کے بھی منکر ہیں،گوکہ اس سزا کا تعلق ایک عملی حکم سےہےنہ کہ عقیدے سے۔ بعض اوقات تومنکرآحادکواپنی مصلحت کےلیے خبرواحد قبول کرنی پڑتی ہے، مثال کےطورپر ایک منکر خبرواحد سےسوال کریں کہ وہ کیسے ثابت کرسکتاہےکہ اس کاباپ واقعی اس کاباپ ہے؟ اس کےپاس دنیا میں صرف ایک شخص ہےجویہ بتا سکتاہےکہ اس کاباپ کون ہے؟ اوروہ ہےاس کی ماں۔ اگر اس کی ماں انکار کردے کہ فلاں شخص تمہارا باپ نہیں بلکہ تمہارا باپ کوئی اور ہےتواس کےپاس انسانوں میں سے کوئی دوسرا شخص ہوسکتاہے جوماں کی بات کوجھٹلاسکے؟ اب آئیے بخاری ومسلم کی بیان کردہ ان احادیث کی طرف جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجادو کیے جانے کاواقعہ ذکر کیا گیاہے۔چونکہ یہ مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے،اس لیے میں آپ کومشورہ دوں گا کہ تفہیم القرآن (از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی) کی آخری جلد میں معوذتین کےضمن میں اس بحث کوملاحظہ فرمالیں جس میں اس حدیث پراٹھائے
[1] صحیح البخاری،المحاربین، حدیث:6819، 6820،وصحیح مسلم، الحدود ،حدیث:1691