کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 201
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمعاذبن جبل رضی اللہ عنہ کویمن بھیجا اوران سےکہا:تم اہل کتاب کےپاس جارہے ہو، انہیں سب سے پہلے’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی دعوت دینا۔ اگروہ قبول کرلیں تو پھر نماز کی فرضیت کےبارے میں بتانا اوراگر اسے بھی قبول کرلیں توپھرزکوٰۃ کےبارے میں بتانا۔[1] یعنی آپ نے اہل یمن کوعقیدہ تبدیل کرنے اور پھر کچھ احکامات پرعمل کرنے، دونوں امور کی دعوت صرف ایک شخص کےہاتھ میں بھیجی۔ اگر ایک شخص کی روایت حجت نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجائے ایک صحابی کے،دس بارہ بھیجا کرتےتاکہ ان کی روایت تواترتک پہنچ جائے۔ 5۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےتحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے کےبعد ایک صحابی کوبھیجا کہ وہ مختلف مساجد میں مسلمانوں کواس حکم سے آگاہ کردیں۔ مدینہ کی پرانی مساجد میں سے ایک مسجد کومسجد قبلتین کہا جاتاہے۔ یہ وہ مسجد ہےجس میں لوگ نماز باجماعت پڑھ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامنادی وہاں پہنچا۔ جونہی اس نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم سنایا،تمام کےتمام لوگ شمال سےجنوب کی طرف قبلہ رخ ہوگئے۔[2] گویا انہوں نے ایک شخص کوخبر کوفوراً تسلیم کیا۔ متواتر صرف قرآن ہےاور احادیث کی ایک قلیل تعداد۔ اسلام کےموٹے موٹے
[1] صحیح البخاری،المغازی، حدیث:4347،وصحیح مسلم، الإيمان ،حدیث:19 [2] صحیح البخاری،الصلاۃ، حدیث 403،وصحیح مسلم،المساجد،حدیث 525. 526 جس مسجد میں اعلان کرنے کاواقعہ پیش آیا تھا،وہ مسجد قباء ہے۔ مسجد قبلتین کےنام سےجومسجد ہے، اس کےبارےمیں معروف ہےکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر پڑھ رہےتھےکہ اسی عالم میں تحویل قبلہ کاحکم آگیا تو آپ نے اپنا رخ تبدیل کرلیا،اس لیے اسےمسجد قبلتین کہتےہیں۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،2؍ 242،)لیکن اس کی سند نہایت ضعیف ہےکیونکہ اس میں محمدبن عمرواقدی کذاب اورمتروک راوی ہے۔