کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 195
کرتے تھے۔ سواس قصے سےمغرور ہوکر اپنی نماز کوتباہ نہ کرنا چاہیے۔‘‘ کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر! ہست مانند در نوشتن شیر و شِیر ’’ پاکبازہستیوں کےمعاملے کو خوپرقیاس مت کریں۔یہ شیر اور شِیر لکھنے کےمانند ہے، جس سےآپ اشتباہ کاشکار ہوسکتےہیں۔‘‘ حضرت خضرعلیہ السلام کےلیے کشتی توڑنے اوربےگناہ بچے کومارڈالنے میں بڑا ثواب تھا اوردوسروں کےلیے نہایت درجے کاگناہ ہے۔ جناب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کاوہ درجہ تھا کہ لشکر کی تیاری آپ کی نماز میں خلل نہیں ڈالتی تھی بلکہ وہ نماز کوکامل کرنے والی ہوجاتی تھی، اس لیے کہ وہ تدبیر اللہ جل شانہ کےالہامات سےآپ کے دل میں ڈالی جاتی تھی اورجوشخص خود کسی امر کی تدبیر کی طرف متوجہ ہو، خواہ وہ امر دینی ہویا دنیاوی، بالکل اس کےخلاف ہے۔اورجس شخص پریہ مقام کھل جاتا ہےوہ جانتا ہے۔ہاں بمقتضائے ظلمات بعضها فوق بعض زنا کےوسوسے سے اپنی بیوی سےمجامعت کےخیال کا بہتر ہے۔ اورشیخ یا اس جیسے اوربزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں، اپنی ہمت کولگادینا، اپنے بیل گدھے کی صورت میں مستغرق ہونےسے زیادہ بُرا ہے۔ کیونکہ شیخ کاخیال توتعظیم اوربزرگی کےساتھ انسان کےدل میں چمٹ جاتاہے اور بیل یا گدھے کےخیال میں نہ تواس قدر چسپیدگی ہوتی ہے نہ تعظیم بلکہ حقیر وذلیل ہوتاہے۔ اورغیر کی یہ تعظیم اوربزرگی شرک کی طرف لےجاتی ہے۔حاصل کلام یہاں وسوسوں کےتفاوت کابیان کرنا مقصود ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے۔ میں نے بقدر ضرورت ترجمہ نقل کردیا ہے۔