کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 193
ہیں۔ جن میں ہرقسم کےمسائل پائے جاتےہیں۔ان میں غلط بھی ہیں اور صحیح بھی۔ ہم ان حضرات میں سے کسی کےمقلد نہیں۔ انہیں اچھے عالم اوربزرگ سمجھتےہیں۔بریلوی حضرات معلوم نہیں یہ غلط بیانی کیوں کرتےہیں کہ یہ حضرات ہمارے امام ہیں۔آپ یقین فرمائیں نہ ان کی کتابیں ہمارے لیےحجت ہیں نہ یہ بزرگ ہمارے امام۔ اب ہمارا فرض نہیں کہ میں اصل عبارت کی تشریح کروں یامغالطے کااظہار، لیکن آپ کی تسکین کےلیے اصل عبارت اوراس کا مطلب عرض کرنامناسب سمجھتاہوں۔ سید احمد کامقصد یہ ہےکہ نماز پوری توجہ سے ادا ہونی چاہیے۔ اس میں خیالات اور وسوسوں کوقریب نہیں آنے دینا چاہیے۔ خصوصاً ایسے خیالات جن سے خداتعالیٰ کی عظمت اوربزرگی میں فرق آئے کیونکہ عبادت میں پہلی چیز اللہ سے محبت اوراس کی عظمت اوربرتری ہے۔ دوسری چیز عبادت میں انسان کاعجز وانکسار اورحاجت مندی۔ ان دوچیزوں میں جن خیالات سےنقص پیدا ہو، اللہ کی عزت اور برتری میں فرق آئے یاانسان اپنے آپ کوبڑا سمجھے، اس کےدل میں تکبر آجائے، عبادت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بطور عبدہ ورسولہ آئے اس میں کچھ حرج نہیں، اس لیے کہ یہ الٰہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا بلکہ اس میں ان کی عبدیت اوررسالت کااقرار ہے۔ اسی لیے مغضوب اور منعم علیہ گروہوں کےخیال سےاللہ کی عظمت میں فرق نہیں آتا۔ اس لحاظ سےیہ خیال اللہ کی عظمت سےنہیں ٹکراتا۔ اگر کسی ولی، بزرگ یانبی کاخیال آجائے توان کی عظمت، ان کی بزرگی کاخیال اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی سے ٹکرائےگا۔ آپ اس کےلیے اعوذ پڑھ سکتےہیں نہ لاحول ۔ اس کےخلاف اگر بیل، گدھے یا کسی ذلیل اورحقیر چیز کاخیال آجائے توآپ فوراً لاحول یااعوذ پڑھ