کتاب: فتاویٰ صراط مستقیم - صفحہ 189
{كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ } ’’ لوگ ایک امت تھے تواللہ نےانبیاء کوبھیجا بشارت دینے کےلیے اور ڈرانے کےلیے۔‘‘[1] گویا مبعوث میں رسول اورنبی دونوں آجاتےہیں ۔ اس اعتبار سے سورہ بقرہ کی آیت میں جن دوفریقوں کاذکر کیاگیا ہے، ان میں سےایک سےمراد رسول ہوں گے، یعنی جنہیں جھٹلایا گیا اوردوسرا فریق انبیاء کاہوگا جن میں سےبعض کولوگوں نےقتل کیا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ یہاں رسول کےمعنی مبعوث کےکیوں لیے گئےہیں، خالص رسول ہی کےمعنی کیوں نہیں لیے گئے، توجواباً عرض ہےکہ اس آیت میں چونکہ دو فریقوں کاذکر کیا گیا ہے، جن میں قتل ہونے والوں کابھی ذکر ہے، اس لیے یہا ں رسول اورنبی بحیثیت دوالگ الگ فریق لیے گئے تاکہ قرآن کی ان آیات سےتعارض نہ ہوجہاں رسولوں کےلیے خصوصی نصرت( انا لننصررسلنا والذين امنوا) [2] اور غلبے کاوعدہ کیا گیا ہے۔[3] 2) شیخ شنقیطی نےاپنی تفسیر کےمقدمےمیں مذکورہ بحث کوتفصیل سے بیان کیاہے جس کا خلاصہ یہ ہےکہ رسولوں کےلیے غلبے کاوعدہ ایسے رسولوں کےلیے ہےجنہیں جہاد کاحکم دیاگیا ہواور ان سے میدان جنگ میں مغالبہ (یعنی غلبہ حاصل کرنےکی جدوجہد) مطلوب ہو برخلاف ان رسولوں کےجنہیں جہاد کاحکم نہیں دیا گیا، چنانچہ ان میں سے کچھ قتل بھی کیے گئے۔یہ فرق انہوں نےسورہ آل عمران کی آیت سےلیا ہے:
[1] البقرہ2: 213 [2] المؤمن 40: 51 [3] المجادلہ 58: 21