کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 90
حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’(فانها تذهب)‘‘یعنی سورج جاتا ہے یامادے کے لحاظ سے ترجمہ ہوگاکہ سورج غروب ہوتا ہے اترتا ہے ۔سورج کے چلنے کاذکر قرآن پاک میں بھی مذکورہےقرآن فرماتا ہےکہ﴿وَٱلشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ﴾ۢ (يس:٣٨)یعنی سورج اپنے مستقرکی طرف چلتا ہے۔مستقرکا مطلب جاءقرار‘‘یعنی وہ نقطہ جہاں سے ہی اسے الٹی حرکت کرنی پڑے گی ۔’’یعنی نقطہ رجوع ،یعنی سورج ایک مقررہ وقت تک ایک نقطہ تک چل رہا ہے جہاں سے ہوکردوبارہ واپس پلٹے گایا الٹی حرکت کرے گا۔‘‘
اس طرح جدید سائنس نے بھی سورج کی حرکت یا چلنے کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے لہٰذا حدیث کے اس لفظ میں کوئی بھی خرابی نہیں اب اس لفظ کی بامحاورہ معنی یہ ہوا کہ سورج اترجاتا ہے اس سے آگے ہے کہ ’’حتي تسجد تحت العرش‘‘ان الفاظ کے معنی نہ سمجھنے میں زیادہ وقت لفظ ’’حتي‘‘کے معنی نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے عام طورپر اس کامعنی یہاں تک کیا جاتا ہے اوراس معنی سے مشکل پیش آجاتی ہے۔
حالانکہ یہاں’’حتي‘‘صرف حرف عطف ہے جس طرح واواورفاءحروف عاطفہ ہیں علامہ عبداللہ اپنی کتاب مشکلات الاحادیث النبویہ وبیانہامیں لکھا ہے کہ کتنے ہی مواقع پر حتی کالفظ عطوف کے لیے استعمال ہوتا ہے جس طرح واواورفاءآتے ہیں۔نحو کے علماء میں سےایک جماعت کا یہ مشہورقول ہے
’’بينات ترجمة مشكلات‘ص٣١٤.‘‘
اب مطلب یہ ہوگا کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اوراللہ تعالی کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے یعنی حتی بمعنی’’اور‘‘کے ہے۔باقی رہا سورج کا سجدہ کرنا سواول تو خود قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے کہ:
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسْجُدُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلْجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌ