کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 89
میں کوئی خرابی نہیں ہے کیونکہ یہ توذوالقرنین کا مشاہدہ بیان کیاگیا ہے۔
یعنی ذوالقرنین کو ایسا دیکھنے میں آیا اوریہ تو آج بھی کوئی سمندر کے کنارہ پر سورج کے غروب ہونے کے وقت کھڑا ہوتو اسے ظاہری طور پر دیکھنے میں آئے گا کہ سورج سمندر میں اترگیا،اگر کسی کو شک ہو تو تجربہ کرلےہم نے اوپر حجاج کی مثال ذکر کی ہے اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ واقعتاً سورج اس پانی میں غروب ہوگیا یہی سبب ہے کہ اللہ تعالی نے لفظ ’’وجد‘‘ذکرکیا ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسے اس طرح دیکھنے میں آیا یا اسے اس طرح محسوس ہوا نہ کہ واقعتا ًسورج اس پانی میں غروب ہوا اس پر خوب غورکریں۔
مزید مطلب بالکل واضح ہے۔باقی کیچڑ والاپانی یا گدلا(مٹی آلود )پانی اس لیے کہاگیا ہے کہ جس جگہ پر ذوالقرنین بحرروم کے کنارہ پر پہنچاتھا وہاں کشتیوں کے آمدورفت بہت ہے لہذا مٹی کی وجہ سے سفید پانی بھی مٹیالے رنگ کا نظر آتا ہے۔بہرکیف مطلب بالکل واضح ہے کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف انتہا تک جاپہنچاجہاں سے آگے جانے کے لیے خشکی کا راستہ اسے نہ ملااورسورج کو اس پانی میں غروب ہوتے ہوئے سمجھے کہ وہ گویا سورج کے اترنے کی جگہ پرجاکرپہنچے اب اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہوسکتاَ۔
انسان کو جس جگہ پر آگے جانے کا راستہ نہیں ملتا تواسے انتہایا حد ہی اس ملک یا زمین کی سمجھتا ہے ممکن ہے کہ حقیقت میں اس سے آگے بھی کوئی ملک یا زمین ہواسی طرح ذوالقرنین جس جگہ پر پہنچا(یعنی مغرب کی طرف کی انتہا کو)اس سے آگے اسے راستہ نہ ملااگرچہ کافی سفر کرنے کے بعد دوبارہ خشکی آتی ہے یعنی یورپ مگر تاہم اسے چونکہ آگے راستہ نہ ملالہٰذا وہاں سے ہی واپس پلٹے ۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب!
باقی رہی صحیح بخاری والی حدیث سوحدیث شریف کے تمام الفاظ لکھ کرترجمہ وتشریح کرتاجاؤں گا جس سے معلوم ہوگا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک میں کوئی بھی خرابی نہیں بلکہ ہمارے کج فہمی اورتحقیق نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہے۔کاش! اللہ ےتعالی تمام مسلمانوں کو صحیح راستہ پر توفیق عنایت فرمائے۔آمین!