کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 83
یعنی فلک دوسری چیز ہے اورآسمان شرعی دوسری چیز۔اورفلک کہا جاتا ہے اس کھلی فضا میں کسی سیارے یاستارے کی گردش کی حد یا دائرہ یامدارکوباقی آسمان شرعی دوسری چیز ہے۔جس کے متعلق سیر حاصل بحث دوسرے سوال کے جواب اوراس سوال کے جواب میں عرض رکھی کہ انسان کی پہنچ آسمان شرعی پرناممکن ہے نہ کہ ان افلاک پر کیونکہ یہ افلاک توانسان کی زد میں ہیں ان تک انسانی رسائی ممکن ہے۔
قرآن کریم نے بھی ان کی گردش یا پھر نے کو فلک میں فرمایاہے نہ کہ آسمان میں جس طرح سورۃ یس اورسورۃ الانبیاء کے اندر یہ الفاظ ہیں:
﴿كُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴾
یعنی وہ سارے کے سارے اپنے اپنے فلک یا دائرے میں گھوم رہے ہیں۔اورانسان کی پہنچ آسمان شرعی پر محال ہے کیوں کہ یہ غیب کے علم سے ہے اورپیچھے جو فتح الباری کی عبارت نقل کی اس میں بھی یہ صراحت ہے کہ آسمان شرعی اورفلک دوالگ چیزیں ہیں دونوں کو خلط ملط کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
باقی یہ سوال رہے گا کہ قرآن کریم میں ہے کہ عالم بالامیں ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ شیطان ملأالاعلی کی گفتگونہیں سنتے۔اوراگرکوئی شیطان اس گفتگوکو سننے کی کوشش بھی کرتا ہے تواس پر دھکتا ہوا انگارہ پھینکا جاتا ہے توپھر جب اوپر شیطان بھی نہیں پہنچ سکتا تو انسان کس طرح پہنچ سکتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی درحقیقت شرعی آسمان کو محسوس اورمشاہدہ میں آنے والے آسمان یا عالم بالاکو خلط ملط کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے،یعنی وہ شیاطین ملأالاعلی کی باتوں کو کان لگا کرسننے کی کوشش کرتے ہیں اور ملأالاعلی آسمان میں ہیں نہ کہ اس کلی فضا میں چونکہ ابلیس فرشتوں کے ساتھ کافی عرصہ رہا تھا پھر اللہ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے اس کو وہاں سے نکالا گیا اس لیے اس کی اولادبھی ان فرشتوں تک پہنچنے اوربات سننے کی ناکام کوشش کرتی ہے اورچونکہ شیطان جنوں میں ہیں انسان کے مقابلے میں ان کو زیادہ اختیار حاصل ہے اوراللہ کی طرف سے اختیار چلانے کی قدرت حاصل ہے۔