کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 82
خبردی جس کےمتعلق اس وقت کوئی تصوربھی نہیں کرسکتاتھالیکن چودھویں صدی کےاختتام پروہ سچ ثابت ہوئی ہےیہ آپ کی صداقت کی کتنی بڑی دلیل ہےاس میں اسلام اورسائنس کی کون سی ٹکرہےاس کےبرعکس خودسائنس نےعملی طرح اس وحی کی بتائی ہوئی بات کی چودہ سوسال کےبعدتصدیق کی ہے۔علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ کاایک شعرہے سبق ملاہےیہ معراج مصطفیٰ سےمجھے کہ عالم بشریت کی زدمیں ہےگردوں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےاوپرچڑھ جانےسےمجھےیہ سبق ملاہےکہ اوپرکےعالم یافضائےبسیط یاکائنات کی دوسری مشاہدہ میں آنےوالی چیزیں انسانی پہنچ پرہیں۔انسان ان تک پہنچ سکتاہے۔ بہرحال کائنات میں جوبھی چیزمشاہدہ میں آنےوالی ہےچاہےاوپرہویانیچے،وہاں انسانی رسائی ممکن ہے قرآن اس حقیقت کو مانتا ہے۔یہاں یہ الگ بات ہے۔كہ ان چیزوں میں سے عملاً کن کن چیزوں پر انسان واقعی پہنچے گاکیونکہ یہ تومستقبل کی بات ہے جس کا علم رب البرکات کے علاوہ کسی کو بھی نہیں ہے۔لیکن اگر کہیں بھی پہنچاتویہ قرآن وحدیث کی بتائی ہوئی حقیقت کے متصادم نہیں ہوگا۔ بلکہ خود اس کا مؤیداورصداقت کا قائل ہوگا۔شرعی آسمان کا الگ ہونا اورچاندوسورج کی گردش کے مداروں کا الگ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔بلکہ مجھ سے قبل ٩نویں صدی کےزبردست عالم حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب’’فتح الباری شرح الصحیح البخاری‘‘میں فرماتے ہیں: ‘‘والحق ان الشمس في الفلك الرابع والسموات للسبع عن اهل الشرع غيرالافلاك انتهي.’’ (فتح الباري:ج٦’ص٢٥٩) ’’یعنی حق بات یہ ہے کہ سورج چوتھے فلک میں ہے اورسات آسمان شریعت والوں کے ہاں افلاک کے علاوہ دوسرے ہیں۔‘‘