کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 8
لے کرجاتے ہیں پھر دوسرے فریق پر جاکردباوڈالتے ہیں کہ آپ کا یہ فتوی ہے جس میں ہماراحق بنتا ہے آپ ہمیں اپنا حق دے دویا کسی بڑے آدمی کے ذریعے یا کورٹ کے ذریعے اس پر دباو ڈلواتے ہیں کہ یہ پیر سائیں کا فتوی ہے جس میں ہمارا حق بنتاہے اس لیے ہمیں ہمارا حق دلوایاجائے حالانکہ اس کا حق نہیں بنتا کیونکہ اس نے جو بیان یا سوال تحریرکروایاوہ اصل واقعہ کے خلاف تھا لیکن کورٹ یا خانگی طرح فیصلہ کرنے والایہ کہہ کراس کی بات کو رد کردتیا ہے کہ بھائی یہ پیر سائیں کی طرف سے فیصلہ کیا ہوا ہے ،اس لیےاس میں جو کچھ بھی تحریر ہے وہ صحیح ہے۔اس لیے یک طرفہ تحریرنہ نکالیں جب دونوں فریقین موجود ہوں تب تحریرنکالیں تواس کے لئے عرض ہے کہ اکثر تحریرلکھوانے کے لیے وہ حضرات آتے ہیں جن کو فریق ثانی نہ اپنا حق دیتے ہیں اورنہ ان کے کہنے پر فیصلہ کرانے کے لئے تیار ہوتے ہیں غریب اورکمزورہونے کی وجہ سے وہ ان کا حق دبالیتے ہیں اس صورت میں وہ کیا کریں؟ اس لئے مجبورا یک طرفہ بیان پر تحریرلکھ کردی جاتی ہے جس سے وہ اپنا حق وصول کرپاتے ہیں ۔باقی رہی یہ بات کہ جو لوگ غلط بیان لکھتے ہیں تواس کے لئے ہم تحریر کے شروع میں یہ الفاظ لکھتے ہیں کہ :بشرط صحة السوالیعنی اگریہ سوال صیح ہے تواس کا یہ جواب ہے اگرسوال ہی غلط ہے توجواب بھی غلط ہوجائے گااورتحریر لکھنے والے مولاناصاحب کا یہ اصول تھا کہ تحریر کی ایک نقل مدرسہ میں بھی رکھتے تھے لیکن جب مولانا دوست محمدلکھمیہ صاحب اپنی علالت کی وجہ سے مدرسہ سے چلے گئے اوردوسرے مولانا صاحب نے چارج سنبھالا تو اکثر تحریر یں ادھر ادھر ہوگئیں اس کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب جوتحریرلکھتے توکبھی اس کی نقل رکھتےلیکن اکثراس کی نقل نہیں رکھتے تھے اس لیے اب تک جو مواد بھی باقی رہا اس کو ترتیب دے کر فتاوی کی صورت میں دی گئی۔ اس کے علاوہ بہت ساراموادتحریری صورت میں شیخ الحدیث جناب محترم مولانا افتخاراحمدالازہری صاحب نے دوسرے احباب کرام سے رابطہ کرکےلیا جن میں سرفہرست واجب