کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 69
وسنت کے موافق ہوتی ہے نہ کہ مخالف تواس صورت میں بھی تقلید شخصی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ کسی بھی عالم ربانی اورحق پرست سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارشادہے۔ خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔اگروہ خود عالم ہے اورکتاب وسنت سے استنباط کی لیاقت رکھتاہے تواسے تمام مسائل میں ازخود کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اوراگروہ خود عالم نہیں توبمصداق: ﴿ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:٤٣) کسی بھی حق پرست اورکتاب وسنت کا صحیح علم رکھنے والے سے دریافت کرسکتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے بلکہ اس طرح کہ اس مسئلہ کے متعلق کتاب وسنت کا کیا فیصلہ ہے تاکہ وہ اہل الذکرفتوی کے لیے دلیل پیش کرے تو اس صورت میں تقلید ختم ہوگئی ۔تقلید تواس وقت باقی رہتی جب اس عالم دین سے اپنی رائے دریافت کی جاتی اوروہ اس مسئلہ کے متعلق کتاب وسنت سے کوئی دلیل پیش نہ کرتا اورپھر محض اس کی مجردرائے پر عمل کیا جاتا شریعت اسلامی میں اس طرزعمل کی اجازت نہیں یہی وجہ ہے کہ خود امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ:’’جس شخص کو بھی ہماری کسی بھی فتوی کی دلیل معلوم نہ ہو تو اس پر ہماری فتوی کے مطابق فتوی دینا حرام ہے۔‘‘ مطلب کہ تقلیدکوتوخودامام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ حرام قراردیتےہیں کیونکہ جب اس مسئلہ کی دلیل معلوم کرنالازم ٹھہری توتقلیدختم ہوگئی۔بہرحال کیاکتاب وسنت اورائمہ کرام وسلف عظام رحمہم اللہ کےاقوال صرف اتنی بات کےمحتمل ہیں کہ اگرکوئی شخص جاہل ہےیعنی اسےازخودکتاب وسنت سےمسائل استنباط کرنےکی صلاحیت نہیں تواسےاجازت ہےکہ کسی بھی عالم لاعلی التعین سےپوچھےلیکن اس شرط کےساتھ کہ وہ ساتھ میں کتاب وسنت کی دلیل بھی پیش کرےتوآپ لوگ اگراس کانام تقلیدرکھتےہیں تویہ آپ کےبس کی بات ہےاگرچہ