کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 68
كی صورت میں ربانی ارشاد ہے کہ وہ مکمل معاملہ کتاب وسنت کی طرف لوٹایا جائے آپ دیکھیں کتنے ہی مسائل ہیں جن میں علماء کا اختلاف ہے۔ مثلا ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کسی مسئلہ کے متعلق کچھ فرماتے ہیں توامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس کے برعکس ارشادفرماتے ہیں اورمالک رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں سے مختلف تیسری بات کہتے ہیں اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کاراستہ ان تینوں سے الگ ہے اب اس صورت میں ہمارے ایمان کا تقاضا ﴿إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر﴾کےمطابق ہے؟ظاہر ہے کہ یہی ہے کہ ان چاروں ائمہ کرام کے اختلاف کو نظر انداز کرکے ہمیں پورامعاملہ مسئلہ مختلف فیہا کو کتاب وسنت کی طرف لوٹادینا ہے پھر اس عدالت عالیہ ’’سپریم کورٹ‘‘کی طرف سے جس کی بات یا فتوی کے متعلق صحت کا فیصلہ صادرہوگااس کی بات درست اوردوسری غلط ہوگی اوراگرہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ کتاب وسنت نے اس مسئلہ کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے تقلید توختم ہوگئی کیونکہ تقلید کی تعریف میں’’جو علماء اصول فقہ نے لکھی ہے‘‘عدم علم داخل ہے یعنی اصول فقہ کے مطابق تقلید کی تعریف یہ ہے: ((اخذ قول الغير من غيرمعرفة دليله -))[1] يعنی کسی کی بات اس کی دلیل معلوم کیے بغیر لے لینا۔ پھر اگر اسے اس مسئلہ کی دلیل کاعلم ہوگیا توتقلید ازخود ختم ہوگئی۔مطلب کہ اختلاف کی صورت میں کسی ایک شخص کی اتباع یاتقلید اس کی دلیل معلوم کیے بغیر کرنا بالکل ناجائز ہے،لیکن اگر وہ مسئلہ مختلف فیہ نہیں بلکہ امت کا اس پر اجماع واتفاق ہے تو اس سے توظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کتاب وسنت کے خلاف قطعانہیں کیونکہ ((لاتجمتمع امتي علي ضلالة اوكماقال -))[2] حديث شریف واردہوئی ہے لہذا امت کا اجماع ایسی ہی بات پر ہوتا ہے جو کتاب
[1] شرح جمع الجوامع،جلد٢،صفحہ٢٥١. [2] كشف الخفاللعجلوني’جلد٢’صفحه٣١٨بحواله معجم الكبير.