کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 663
وارث:دوبیٹیاں10آنے8پائی مشترکہ، بیوی2آنے، بھائی1آنہ8پائی، دوبہنیں1آنہ8پائی، نواسامحروم۔
(2)مرحوم نے جوتقسیم کی تھی وہ غلط ہے کیونکہ دوسرےحصےداربھی موجودہیں اورچونکہ بیوی وغیرہ کےحصص مقررہیں، اس لیےسب کومقررہ حصے دیےجائیں گے۔
(3)جوبیٹی مرحوم کی زندگی میں فوت ہوگئی تھی اس کا حصہ نہیں ہے۔
(4)تحفہ یاہبہ کی ہوئی چیزواپس لیناناجائز ہے۔
هذاهوعندي والعلم عندربي
جدید اعشاریہ فیصد طریقہ تقسیم
کل ملکیت100
دوبیٹیاں 3/2/=16.66
بیوی 8/1/=12.5
بھائی عصبہ10.42
دوبہنیں عصبہ10.45 فی کس5.21
نواسامحروم
سوال:کیافرماتے ہیں علماءدین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص وجیہ الدین وفات پاگیاجس نےاپنےپیچھےوارث چھوڑےدوبیٹےرب رکھااورسائیں رکھا، ایک بیٹی حورچھ پوتےاورچھ پوتیاں بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق ہرایک وارث کوکتناحصہ ملےگا؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیے کہ سب سےپہلےمرحوم وجیہ الدین کی ملکیت میں سےاس کےکفن دفن کاخرچہ نکالاجائے پھراگرمرحوم پرقرض ہوتواسےادا کیاجائےپھراگرجائزوصیت کی تھی تومکمل جائیدادکےثلث(تیسرے)حصے تک سےادا کی جائےاس کےبعدباقی ملکیت متحرک غیرمتحرک کوایک روپیہ قراردےکرورثاءمیں اس طرح