کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 661
اورایک سوتیلی بہن، ایک سوتیلی ماں اوردوسگےماموں علی خان اورجعفر۔ وضاحت کریں کہ شریعت محمدی کےمطابق مرحومہ سعیداں کی ملکیت کاحقدارکون ہے؟ الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیے کہ مرحومہ کی کل ملکیت میں سب سےپہلےمرحومہ کےکفن دفن کاخرچہ کیاجائےگا، پھراگرقرض ہےتواسےاداکیاجائے، اس کےبعداگرمیت نے کوئی وصیت کی تھی تواسےکل مال کےتیسرےحصےتک پوراکیاجائے، اس کےبعدمنقولہ یاغیرمنقولہ جائیدادکوایک روپیہ قراردےکرتقسیم اس طریقےسےکی جائےگی۔ 5آنے4پیسےکی وصیت جومرحومہ نے کی تھی اسےاداکیاجائے، اس کے بعدجو10آنے8پیسےباقی بچےوہ وارثوں میں تقسیم کیاجائےماں کوچھٹاحصہ ملےگا۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب سوال:کیافرماتے ہیں علماءدین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص بنام عبدالحق وفات پاگیاجس نے درج ذیل وارث چھوڑے۔ باپ، ماں، ایک بیوی ایک بیٹااوردوبیٹیاں۔ بتائیں کہ شریعت محمدی کےمطابق ہرایک کو کتناحصہ ملےگا؟ الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیے کہ مرحوم کی ملکیت میں سےاولااس کاکفن دفن کاخرچہ اداکیاجائے، اس کےبعداگرمرحوم پرقرض تھاتواسےادا کیاجائےاس کےبعداگروصیت کی تھی توساری جائیداد کےتیسرےحصےسےتک سےاداکی جائے۔ اس کےبعدمرحوم کی مکمل ملکیت منقولہ خواہ غیرمنقولہ کوایک روپیہ قراردےکراس طرح سےتقسیم ہوگی۔ وارث باپ کوچھٹاحصہ2آنے8پائی، ماں کوبھی چھٹاحصہ2آنے8پائی، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَ‌كَ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ﴾ بیوی کوآٹھواں حصہ2آنے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾باقی جو8آنے8پائی بچیں گےاس کےتین حصےکرکے2حصےبیٹےکو1حصہ بیٹی کو