کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 646
ملےگا۔ وضاحت کے لیے فوتی حاجی محمدکل ملکیت1روپیہ۔
ورثاء:بیٹا4آنہ8پائی، بیٹا4آنہ8پائی، بیٹی2آنہ4پائی، بیٹی2آنہ4پائی، بیوی2آنہ۔
هذاهوعندي والعلم عندربي
جدید فیصد اعشاریہ طریقہ تقسیم
میت حاجی محمدجمالی کل ملکیت100
بیوی 8/1/=12.5
2بیٹےعصبہ58.33 فی کس29.16
2بیٹیاں عصبہ29.16 فی کس14.58
سوال:کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ بنام محمدابراہیم فوت ہوگیاجس نےورثاء میں سےایک بیوی روشن بیگم پانچ بیٹے امان اللہ، عنایت اللہ، حبیب اللہ ، امداداللہ، رحمت اللہ اور6بیٹیاں اشرف النساءارشادبیگم، زرینہ بیگم، شمشادبیگم، مجیدہ بیگم، رخسانہ بیگم چھوڑے۔ شریعت محمدی کےمطابق بتائیں کہ ہرایک کوکتناحصہ ملےگا؟
اس کےبعدرحمت اللہ فوت ہوگیاجس نے ورثاء میں سےچارسگی بہنیں اوردواخیافی بہنیں اور4اخیافی بھائی اورایک ماں چھوڑی۔ اس کےبعدامان اللہ فوت ہوگیاجس نےورثاء میں سےایک بیوی چھ بیٹیاں اورتین بھائی 2سگی بہنیں اور4اخیافی بہنیں چھوڑیں؟بینواتوجروا.
الجواب بعون الوھاب: معلوم ہوناچاہیے کہ سب سےپہلے فوتی کی ملکیت سےکفن دفن پرخرچہ کیاجائےگااس کےبعداگرقرضہ ہےتواسے ادا کیاجائےگا۔ پھراگرجائزوصیت ہےتوثلث مال سےادا کی جائےگی اس کےبعدمنقول خواہ غیرمنقول کوایک روپیہ قراردےکراس کےورثاء میں اس طرح تقسیم کیا جائےگا۔