کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 609
محمدی کے مطابق ہرایک کوکتناحصہ ملےگا۔ (2)......یوسف فوت ہواجس کےبیٹے بھی ہیں اوربیٹیاں بھی بتائیں ہ بچیوں کاحق ولایت کس کوہےاوروارث کون ہے؟ الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیے کہ سب سےپہلے فوت ہونے والے کی ملکیت میں سےاس کے کفن دفن کا خرچہ کیاجائے، بعدمیں اگرقرض ہےتواسےاداکیاجائےپھراگروصیت کی تھی توسارے مال کے تیسرےحصے تک سےپوری کی جائے گی اس کے بعدباقی مال منقولہ خواہ غیرمنقولہ کوایک روپیہ قراردےکر تقسیم اس طرح سے ہوگی۔ مرحوم محمدصدیق کل ملکیت1روپیہ وارث:بیوی2آنے، بیٹی8آنے، بھتیجا3آنے، بھتیجا3آنے، بھتیجی محروم، بھتیجی محروم۔ بھتیجیوں کوحصہ نہیں ملےگاکیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے:((الحقواالفرائض باهلهافمابقي فلاولي رجل ذكر.)) [1] اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾ قولہ تعالیٰ :﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ﴾ (2)......باقی یوسف کی ملکیت کےاوراس کی بیٹیوں کے وارث یوسف کے بیتے ہیں یوسف کی بیٹیوں کےحق ولایت یوسف کےبیٹوں کوہےکیونکہ یہی حق دارہیں حق ولایت بھائیوں کوحاصل ہےکسی اورکونہیں باقی ملکیت میں یوسف کی بیٹیاں بھی شامل(شریک، حصےدار)ہیں فوت ہونے والےمحمدصدیق نے اپنے بھائی محمدیوسف کی جگہ بیچ ڈالی۔ حالانکہ اس جگہ کےحقدارکی اولادتھی، لہٰذا سب سےپہلے محمدصدیق کی ملکیت میں سےاس جگہ کی قیمت محمدیوسف کی اولادکودی جائے گی ۔ اس کوادارکرنے کے بعدوارثوں میں تقسیم ہوگی۔ هذاهوعندي والعلم عندربي
[1] صحيح بخاري، كتاب الفرائض، باب ميراث ابن الابن اذا لم يكن ابن، رقم الحديث: 6735 ۔ صحيح مسلم، كتاب الفرائض، باب الحقوا الفرائض باهلها، رقم:4141.