کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 586
میں جائز ہوتی ہے۔ باقی غیروارث کواس طرح کی ہوئی وصیت سےثلث ملتاہے۔ اس لیےیہ ہبہ شمارنہ ہوگی اورنہ ہی بیوی کویہ ملکیت ملےگی حدیث مبارکہ میں ہے:((لاوصية لوارث.)) [1]’’وصيت وارث کے لیے نہیں۔‘‘
هذاهوعندي والعلم عندربي
سوال:کیافرماتےہیں علماءدین اس مسئلہ میں کہ مرحوم سوزل کےچھ بیٹے جان محمد، خدابخش، محمدیوسف، محمدیعقوب، جڑیو، محمدحیات اورایک بیٹی تھے، سوزل کی موجودگی میں ہی بیٹی اوردوبیٹے جان محمداورخدابخش وفات پاگئےاسی طرح سوزل کی بیوی بھی سوزل کی زندگی میں ہی وفات پاگئی، سوزل کےپاس گھرکاایک پلاٹ ہے جس پر سوزل کا پوتادودوولدجان محمدقابض ہے ، بتائیں کہ اس پلاٹ کاحقیقی وارث کون ہے؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ مذکورہ سوال کے مطابق سوزل داداہےاوردودواس کاپوتاہے لہٰذا شریعت محمدی کے مطابق پوتا(دودو)اپنے داداکی وراثت کاشرعی مالک نہیں ہے ، اس لیے وہ پلاٹ دودوکونہیں ملےگااوراس پلاٹ کےحقیقی وارث اس کےبیٹے ہیں اس لیے یہ پلاٹ سوزل کے بیٹوں میں برابرتقسیم کیاجائے گایعنی یہ پلاٹ یوسف، یعقوب جڑیو، محمدحیات کودیا جائےگا۔ باقی باپ کی زندگی میں ہی فوت ہونے والے لڑکوں اوراس کے پوتوں کو(زندہ)بیٹوں کی موجودگی میں حصہ نہیں ملاکرتا۔
هذاهوعندي والعلم عندربي
سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ پانچ بھائی تھےجوہندوستان سےہجرت کرکےآئےتھےجوملکیت تھی دےکرپاکستان میں ہرایک نے برابرحصہ لیا۔
[1] ترمذي،كتاب الوصايا،باب ماجاءك لاوصية لوارث،رقم الحديث: ٢١٢۰ ۔ نسائي، كتاب الوصايا،باب ابطال الوصية للوارث،رقم الحديث:٣٦٧١.