کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 585
اس کے بعددونوں سیٹھ جمیل کی دکان پرآگئے۔ عبداللہ کاگاہک حاجی صاحب آیااورحاجی عبداللہ سےپیسے مانگےجس پرحاجی عبداللہ نے رومال میں سےاس کے۔ /1000ایک ہزاروالی دستی نکال دی اورباقی بدھےپیسےدےدیےجس پر منشی غلام نے کہا کہ میں حاجی صاحب کوکھلے پیسےدیتا ہوں منشی غلام محمد نے ۔ /5000پانچ ہزارحاجی کودیےجس کے بعددونوں وہیں بیٹھے رہے اوررومال والی رقم جوکہ باندھی ہوئی تھی جس میں۔ /4000حاجی عبداللہ کے اور۔ /7000منشی غلام محمد کے تھے دونوں کے درمیان سےوہ رومال چوری ہوگیاچھان بین کی گئی مگررقم واپس نہیں مل سکی۔ بتائیں کہ شریعت کےمطابق پیسے کس کو دینے پڑیں گے؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ یہ ایک امانت تھی اگرامانت چوری ہوجاتی ہے توبھروائی نہیں جاتی ۔ ((وروي عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده ان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قال من اودع وديعة فلاضمان عليه.))
(رواه ابن ماجه،كتاب الصدقات، بان الوديعة، رقم الحديث : ٠١ ٢٤ )
اسی طرح ایک اورحدیث میں ہےجسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے بیان کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:((لاضمان علي موتمن.)) (دارقطني،كتاب البيوع) کہ جس کےپاس امانت رکھوائی گئی ہےاس پرکوئی چٹی نہیں اورنہ ہی اس سے بھروائی جائے گی۔
یعنی منشی غلام محمداورحاجی عبداللہ میں سے کسی پر بھی اس رقم کوبھرنالازم نہیں آتا۔
هذاهوعندي والعلم عندربي
سوال:کیافرماتےہیں علماءدین اس مسئلہ میں کہ سلیمان نے بیماری کی حالت میں اپنی ملکیت اپنی بیوی کوہبہ کردی تھی اسی بیماری میں سلیمان فوت ہوگیا۔ وضاحت کریں کہ شریعت محمدی کے مطابق یہ ہبہ(بخشش)جائز ہےیا نہیں؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ بیماری کی حالت میں ہبہ وصیت کےحکم میں تبدیل ہوجاتی ہےیعنی وہ ہبہ نہیں رہتاباقی یہ وصیت ہوگی اوروصیت وارث کے حق